سلسلے سب رک گئے دل ہاتھ سے جاتا رہا

سلسلے سب رک گئے دل ہاتھ سے جاتا رہا
ہجر کی دہلیز پر اک درد لہراتا رہا


قلب کا دامن جنوں میں بھی نہ چھوڑا عقل نے
دھڑکنوں کی چاپ سن کر مجھ کو خوف آتا رہا


مسئلہ اس کی انا کا تھا کہ شہرت کی طلب
اس کا ہر احسان مجھ پر نیکیاں ڈھاتا رہا


میں رہا بے خواب خوابوں کے طلسمی جال میں
وہ مری نیندیں چرا کر لوریاں گاتا رہا


صبر کی تکرار تھی جوش و جنون عشق سے
زندگی بھر دل مجھے میں دل کو سمجھاتا رہا


روز آ کر میری کھڑکی میں مرے بچپن کا چاند
رکھ کے سر اک نیم کی ٹہنی پہ سو جاتا رہا


ہجر کے بادل چھٹے جب دھوپ چمکی عشق کی
وصل کے آنگن میں بھنورا گل پہ منڈلاتا رہا


زندگی بے باک ہو کر تجھ سے آگے بڑھ گئی
اور عازمؔ تو لکیروں پر ہی اتراتا رہا