سلسلہ اب بھی خوابوں کا ٹوٹا نہیں

سلسلہ اب بھی خوابوں کا ٹوٹا نہیں
کوچ کر جائیں کب کچھ بھروسا نہیں


ہیں فصیلوں سے الجھے ہوئے سرپھرے
دور تک کوئی شہر تمنا نہیں


شام سے ہی گھروں میں پڑیں کنڈیاں
چاند اس شہر میں کیوں نکلتا نہیں


آگ لگنے کی خبریں تو پہنچیں مگر
کوئی حیرت نہیں کوئی چونکا نہیں


چھین کر مجھ سے لے جائے میرا بدن
معتبر اتنا کوئی اندھیرا نہیں


کیا یہی ملتے رہنے کا انعام ہے
ایک کھڑکی نہیں اک جھروکا نہیں


ایک منظر میں لپٹے بدن کے سوا
سرد راتوں میں کچھ اور دکھتا نہیں


تیز ہو جائیں اس کا تو امکان ہے
آندھیاں اب رکیں ایسا لگتا نہیں