سینے میں سانس آنکھوں میں جب تک کے دم رہے
سینے میں سانس آنکھوں میں جب تک کے دم رہے
باطل کے سامنے نہ مرا سر یہ خم رہے
موسم بھی دل فریب ہے ماحول بھی حسین
لگ جا گلے کہ کچھ تو وفا کا بھرم رہے
کردار پر نہ اپنے کبھی حرف آ سکا
دشمن کی محفلوں میں بھی ہم محترم رہے
ویسے تو یہ جہان فسانوں کا ڈھیر ہے
لیکن فسانے اپنے بہت ہی اہم رہے
ہم نے ہر ایک مسئلہ حل کر لیا مگر
باقی بہارؔ زلف کے بس پیچ و خم رہے