سیماب وشی تشنہ لبی با خبری ہے
سیماب وشی تشنہ لبی با خبری ہے
اس دشت میں گر رخت سفر ہے تو یہی ہے
اس شہر میں اک آہوئے خوش چشم سے ہم کو
کم کم ہی سہی نسبت پیمانہ رہی ہے
بے صحبت رخسار اندھیرا ہی اندھیرا
گو جام وہی مے وہی مے خانہ وہی ہے
اس عہد میں بھی دولت کونین کے با وصف
ہر گام پہ ان کی جو کمی تھی سو کمی ہے
ہر دم ترے انفاس کی گرمی کا گماں ہے
ہر یاد تری یاد کے پھولوں میں بسی ہے
ہر شام سجائے ہیں تمنا کے نشیمن
ہر صبح مئے تلخیٔ ایام بھی پی ہے
دھڑکا ہے دل زار ترے ذکر سے پہلے
جب بھی کسی محفل میں تری بات چلی ہے
وہ عطر تری کاکل شب رنگ نے چھڑکا
مہکی ہے خرد روح کلی بن کے کھلی ہے