شور اس کے مکاں سے اٹھتا ہے
شور اس کے مکاں سے اٹھتا ہے
کیا وہ مفلس جہاں سے اٹھتا ہے
شک تعلق خراب کرتا ہے
فتنہ وہم و گماں سے اٹھتا ہے
دم میں بجھ جاتی ہے صف ماتم
تو اگر درمیاں سے اٹھتا ہے
دنیا جھوٹوں میں بٹ گئی دیکھیں
نعرۂ حق کہاں سے اٹھتا ہے
شہر میں کس طرف لگی ہے آگ
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
دود انسانیت کی خوشبو کا
پیاری اردو زباں سے اٹھتا ہے
عشق میں آدمی زماںؔ اوپر
فکر سود و زیاں سے اٹھتا ہے