شور اتنا بڑھا ہر صدا گم ہوئی
شور اتنا بڑھا ہر صدا گم ہوئی
بھیڑ میں میری آواز پا گم ہوئی
اب خدائی کا دعویٰ ہر اک بت کو ہے
تیری پہچان بھی اے خدا گم ہوئی
آدمی اب مشینوں کی دنیا میں ہے
جذبۂ دل کی ہر اک نوا گم ہوئی
یہ جنوں خود پرستی کا اتنا بڑھا
خود شناسی کی عقل رسا گم ہوئی
شعلے نفرت کے دل میں بھڑکنے لگے
وہ محبت کی ٹھنڈی ہوا گم ہوئی
اب تسلط خزاں کا بہاروں میں ہے
یہ خبر دے کے باد صبا گم ہوئی