شور طوفان ہوا ہے بے اماں سنتے رہو

شور طوفان ہوا ہے بے اماں سنتے رہو
بند کوچوں میں رواں ہے خون جاں سنتے رہو


کان سن ہونے لگے ہیں اپنے گوش ہوش سے
سرخ پریوں کی صدا دامن کشاں سنتے رہو


گرمی آواز کو شعلہ بنا کر پھول سا
دور تک حد نظر تک رائگاں سنتے رہو


شورش بحر کرم میں ماہی مشعل کہاں
جسم شب میں دن کی دھڑکن بے گماں سنتے رہو


گاڑھی تاریکی میں بھاری برگ خواہش کی مہک
مثل کوندے کے مکاں اندر مکاں سنتے رہو