شعلے سے چٹکتے ہیں ہر سانس میں خوشبو کے
شعلے سے چٹکتے ہیں ہر سانس میں خوشبو کے
آئی ہے صبا شاید وہ پھول سا تن چھو کے
احساس کے جنگل میں اک آگ بھڑکتی ہے
جھونکے کسی گلشن میں ہیں رقص کناں لو کے
اوروں نے بھی پوجا ہے اے دوست تجھے لیکن
یکساں تو نہیں ہوتے جذبات من و تو کے
یہ عہد تمنا بھی اک دور قیامت ہے
جب حسن پیے آنسو اور عشق لہو تھوکے
ہم خوشۂ گندم کو جنت سے یہاں لائے
پھر بھی ترے دیوانے دنیا میں رہے بھوکے
وہ درد کو چنتا تھا پلکوں سے ستاروں کو
نغموں میں بدلتا ہے احساس کے لب چھو کے
کچلا ہے بہت دل کو سنگین حقائق نے
پھر بھی نہ ظفرؔ بھولے قصے رخ و گیسو کے