شعلے بھڑکاؤ دیکھتے کیا ہو
شعلے بھڑکاؤ دیکھتے کیا ہو
جل اٹھے گھاؤ دیکھتے کیا ہو
غرق خوناب ہونے والی ہے
درد کی ناؤ دیکھتے کیا ہو
دل کسی یاد نے چھوا ہوگا
آگے بڑھ جاؤ دیکھتے کیا ہو
انجم چرخ فکر آدم کا
چل گیا داؤ دیکھتے کیا ہو
پیے بیٹھے ہیں زہر دوراں ہم
جام اٹھواؤ دیکھتے کیا ہو
حسن سے لو نظر کی بھیک اخترؔ
ہاتھ پھیلاؤ دیکھتے کیا ہو