شعلہ شعلہ تھی ہوا شیشۂ شب سے پوچھو

شعلہ شعلہ تھی ہوا شیشۂ شب سے پوچھو
یا مرا حال مری تاب طلب سے پوچھو


جانے کس موڑ پہ ان آنکھوں نے موتی کھوئے
بستیاں دید کی ویران ہیں کب سے پوچھو


راستے لوگوں کو کس سمت لیے جاتے ہیں
کیا خبر کون بتا پائے گا سب سے پوچھو


دن نکلتے ہی ستاروں کے سفینے ڈوبے
دل کے بجھنے کا سبب موج طرب سے پوچھو


وہی دن رات وہی ایک سے لمحوں کا حساب
سخن آغاز کروں عمر کا جب سے پوچھو


خامشی بھی تو سناتی ہے فسانے اکثر
کس تماشے میں ہوں یہ بندش لب سے پوچھو