شکوہ از علامہ محمد اقبال
شکوہ علامہ اقبال کی مشہورنظم ہے جسے پہلی مرتبہ 1911ء میں لاہور میں انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں پیش کیا گیا تھا۔
اقبال 1905ءسے 1908ء تک تین سال یورپ میں رہے۔ جرمنی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اورقانون کی سند برطانیہ سے۔ انہوں نے یورپ میں قیام کے دوران وہاں کی علمی،سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی ترقی کو قریب سے دیکھا۔ جب وہ واپس ہندوستان آئے تو اہل یورپ کے برعکس مسلمانوں کی بے عملی ،غلامانہ ذہن، اقتصادی پسماندگی ، عملی ذوق و شوق کی کمی،دین سے محض زبانی عقیدت، قرآنی تعلیمات سے دوری اور اسوہِ رسول سے وابستگی کے خیالی دعوے دیکھ کر بہت پریشان ہوئے۔
ان ایام میں صرف ہندوستان ہی کے مسلمان زبوں حال نہ تھے بلکہ ایران، ترکی، مصر اور افریقہ کے مسلمانوں کی حالت بھی خراب تھی۔ لیبیا اور ترکی میں جنگوں نے مسلمانوں کے احساس زوال کو اور بڑھا دیا تھا۔ مسلمان بلقان سے نکالے جاچکے تھے۔ ایران موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھا۔ طرابلس کے میدان مجاہدین کے خون سے لالہ زار تھے۔
ان عالمی حالات میں اقبال کی یہ نظم منظر عام پر آئی۔ شکوہ میں اقبال کے اپنے دل کی آواز کے ساتھ ساتھ ایک عام مسلمان کے انداز فکر کی بھی ترجمانی تھی۔
شکوہ خدا کے دربار میں دور حاضر کے مسلمانوں کی ایک فریاد بھی ہے۔
شکوہ نے مسلمانوں میں یہ فکر پیدا کی کہ وہ دنیا میں اپنی شکست و زوال کے اسباب پر غور کریں۔
جن کی شمشیر اورتکبیر سے بڑے بڑے قہار لرز جاتے تھے وہ کیوں اس ذلت و رسوائی کا شکار ہے۔
ایک طرف توان کا یہ عقیدہ کہ وہ خدا کی محبوب امت ہیں اور دوسری طرف یہ حقیقت ہے کہ ان کا مکمل زوال ہو چکا ہے۔
شکوہ میں اقبال کا کسی رکھ رکھاؤ کے بغیر اللہ سے براہ راست ہم کلام ہونا بھی اسلامی تصورات کے عین مطابق ہےکیونکہ صرف دین اسلام ہی کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ اس میں بندہ خدا سے بلا واسطہ ہم کلام ہو سکتا ہے۔
اقبال کا کہنا ہے کہ خدا کی ذات تو بلاشبہ ازل سے موجود تھی اور اس دنیا میں غالب اقوام سلجوقی، تورانی، چینی، ساسانی ، یونانی ، یہودی اور نصرانی بھی آباد تھے، لیکن تصورِ توحید کی اشاعت و تبلیغ کا جو کام امت مسلمہ نے سرانجام دیا ہے وہ کسی اور کے بس کی بات نہ تھی۔اہل اسلام ہی کویہ شرف حاصل ہوا کہ انہوں نے خدائے واحد کے پیغام کو دنیا بھر میں پہنچا یا۔
روم اور ایران جیسے ملکوں کو فتح کرنا کسی حیرت انگیز کارنامے سے کم نہیں ہے۔ اُنہی کی بدولت دنیا میں حق کی صدا گونجی۔سلطنت عثمانیہ کے دورمیں مسلمانوں کی فرماں روائی یونان ، بلغاریہ، البانیہ ، ہنگری اور آسٹریا تک پھیلی ہوئی تھی۔ہسپانیہ پر بھی مسلمان کئے صدیاں حاکم رہے اوریورپ کے ان علاقوں میں جہاں آ ج کلیساؤں میں ناقوس بجتے ہیں کبھی وہاں اذانیں گونجتی تھیں۔ افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں مصر، لیبیا ، تیونس ، مراکش اور الجزائر جیسے ممالک بھی مسلم سلطنت میں شامل تھے۔
شکوہ میں اقبال نے امت مسلمہ کے درخشاں ماضی کی جھلکیاں دکھاتے ہوئے ان کی موجودہ حالت کادوسری اقوام سے موازنہ کیا ہے،پھرمسلمانوں کی اس بے بسی و بے چارگی کا واسطہ دے کر خدا سے پوچھا ہے کہ اہلِ توحید پر اب وہ پہلے جیسا لطف و کرم کیوں نہیں جبکہ وہ آج بھی خدا کے نام لیو ا ہیں اور اُس کے رسول کے پیروکار ہیں ،آج بھی اُن کے دلوں میں دینِ اسلام کے لیے زبردست جوش و جذبہ موجود ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منتخب اشعارشکوہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیوں زیاں کار بنوں،سُود فراموش رہوں
فکرِ فردا نہ کروں،محوِ غمِ دوش رہوں
نالے بُلبُل کے سُنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گُل ہوں کہ خاموش رہوں
جُرأت آموز میری تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے،خاکمِ بدہن ہے مجھ کو
ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصّۂ درد سُناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
ساز خاموش میں ،فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم
اے خدا! شکوۂ اربابِ وفا بھی سُن لے
خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گِله بھی سُن لے
ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہان کا منظر
کہیں مسجود تھے پتّھر،کہیں معبود شجر
خُوگرِ پیکرِ محسوس تھی اِنساں کی نظر
مانتا پھر کوئی اَن دیکھے خدا کو کیونکر
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا؟
قوّتِ بازوئے مسلم نے کیا کام ترا
بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی ،تُورانی بھی
اہلِ چیں چین میں،ایران میں ساسانی بھی
اِسی معمورے میں آباد تھے یونانی بھی
اِسی دُنیا میں یہودی بھی تھے،نصرانی بھی
پر ترے نام پہ تلوار اُٹھائی کس نے
بات جو بگڑی ہوئی تھی،وہ بنائی کس نے
تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں
خشکیوں میں کبھی لڑتے ،کبھی دریاؤں میں
دِیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
نقش توحید کاہر دِل پہ بٹھایا ہم نے
زیرِ خنجر بھی یہ پیغام سُنایا ہم نے
تُو ہی کہہ دے کہ اُکھاڑا درِ خیبر کس نے
شہر قیصر کا جوتھا،اُسکو کیا سَر کس نے
توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے
کاٹ کے رکھ دیئے کفّار کے لشکر کس نے
کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدۂ ایراں کو؟
کس نے پھر زندہ کیا تذکرۂ یزداں کو؟
کون سی قوم فقط تیری طلبگار ہوئی
اور تیرے لیے زحمت کشِ پیکار ہوئی
کِس کی شمشیر جہاں گیر،جہاں دار ہوئی
کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی
کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
مُنہ کے بَل گر کے "ھُوَ اللہُ اَحَد"کہتے تھے
آگیا عین لڑائی میں اگر وقتِ نماز
قبلہ رُو ہو کے زمیں بوس ہوئی قومِ حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ هي کوئی بندہ نواز
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
محفلِ کون و مکاں میں سحر و شام پھرے
مئے توحید کو لے کر صفتِ جام پھرے
کوہ میں، دشت میں لے کر ترا پیغام پھرے
اور معلوم ہے تجھ کو،کبھی ناکام پھرے
دشت تو دشت ہیں ،دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
صفحۂ دہر سے باطل سے کومٹایا ہم نے
نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے
تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے
پھر بھی ہم سے یہ گِلا ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں،تُو بھی تو دِلدار نہیں
اُمتیں اور بھی ہیں ، اُن میں گناہگار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں، مست مئے پندار بھی ہیں
ان میں کاہل بھی ہیں،غافل بھی ہیں،ہشیار بھی ہیں
سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
بُت صنم خانوں میں کہتے ہیں مسلمان گئے
ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
منزلِ دہر سے اونٹوں کے حدی خواں گئے
اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے
خندہ زن کُفر ہے ،احساس تجھے ہے کہ نہیں
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں
یہ شکایت نہیں، ہیں اُن کے خزانے معمور
نہیں محفل میں جنھیں بات بھی کرنے کا شعور
قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حُور و قصور
اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدۂ حور
اب وہ الطاف نہیں، ہم پہ عنایات نہیں
بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں
کیوں مسلمانوں میں ہے دولتِ دنیا نایاب
تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب
تُو جو چاہے تو اُٹھے سینۂ صحرا سے حباب
رہروِ دشت ہو سیلی زدۂ موجِ سراب
طعنِ اغیار ہے، رسوائی ہے،ناداری ہے
کیا تیرے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے؟
بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لبِ جُو بیٹھے
سُنتے ہیں جام بکف نغمۂ کُو کُو بیٹے
دور ہنگامۂ گُلزار سے یک سُو بیٹھے
تیرے دیوانے بھی ہیں مُنتظر "ھُو" بیٹھے
اپنے پروانوں کی پھر ذوقِ خُود افروزی دے
برقِ دیرینہ کو فرمانِ جگر سوزی دے