شکوۂ گردش تقدیر سے کیا ہوتا ہے

شکوۂ گردش تقدیر سے کیا ہوتا ہے
کارساز اہل محبت کا خدا ہوتا ہے


شکوہ ہوتے ہیں محبت میں گلہ ہوتا ہے
کوئی اپنوں سے بھی اس طرح خفا ہوتا ہے


مسکرائے وہ مرے غم کی حکایت سن کر
شاید اب ان کو بھی احساس جفا ہوتا ہے


آ ہی جاتا ہے محبت میں اک ایسا لمحہ
مدعا دل کا جب آنکھوں سے ادا ہوتا ہے


اک قیامت سی گزر جاتی ہے اپنے دل پر
جب گلے مل کے کوئی ہم سے جدا ہوتا ہے


دل دھڑکتا ہے کہ انجام نہ جانے کیا ہو
جب کبھی لطف و کرم ان کا سوا ہوتا ہے


عشق کے نالۂ محروم رسا ہو کے رہے
اب تغافل بھی بعنوان وفا ہوتا ہے


شکوۂ گردش ایام سے حاصل اے سوزؔ
قید ہستی سے کوئی یوں بھی رہا ہوتا ہے