شکست دل کا فسانہ سنا کے دیکھوں گا

شکست دل کا فسانہ سنا کے دیکھوں گا
میں ظرف حسن کو بھی آزما کے دیکھوں گا


عجب نہیں کہ اسی طرح نام رہ جائے
تمہاری راہ میں خود کو مٹا کے دیکھوں گا


نہ جانے کیوں نہیں بدلے ابھی مرے حالات
شریک حال اب ان کو بنا کے دیکھوں گا


سنا یہ ہے کہ ہر اک شے میں ہے ترا جلوہ
میں اب حجاب نظر کو اٹھا کے دیکھوں گا


ہنسی یہ کیوں ترے ہونٹوں پہ اب نہیں آتی
خطا معاف تجھے گدگدا کے دیکھوں گا


شراب کو نہ کہیں گے یہ اس کے بعد حرام
جناب شیخ کو اک دن پلا کے دیکھوں گا


ملال ہی تو ہے اے سوزؔ آرزو کا ملال
میں آرزوؤں کی شمعیں بجھا کے دیکھوں گا