شکست بدن

اداس سی تھی وہ شام کتنی
کہ اس کی تازہ لحد پہ جس دم
بہ چشم نم میں کھڑا ہوا تھا
ببول کہنہ کی پتیوں میں
اک ٹمٹماتا ہوا ستارہ
نہ جانے کیسے ٹھہر گیا تھا
دھڑکتے دل سے
میں سوچتا تھا
تھی کیسی نازک وہ میری ساتھی
مزاج کتنا تھا اس کا اونچا
کہ جامہ زیبی تھی ختم اس پر
مدام خوشبو میں مہکی رہتی
وہ آج لیکن
قضا کی زد پر
پڑی ہوئی ہے خموش کیسے
ہزارہا کنکروں کے نیچے
کسے خبر ہے کہ حشر کیا ہے
بدن کا اس کے
بدن جو سیمیں تھا
مرمریں تھا