شکست انا
آج کی رات بہت سرد بہت کالی ہے
تیرگی ایسے لپٹتی ہے ہوائے غم سے
اپنے بچھڑے ہوئے ساجن سے ملی ہے جیسے
مشعل خواب کچھ اس طور بجھی ہے جیسے
درد نے جاگتی آنکھوں کی چمک کھا لی ہے
شوق کا نام نہ خواہش کا نشاں ہے کوئی
برف کی سل نے مرے دل کی جگہ پا لی ہے
اب دھندلکے بھی نہیں زینت چشم بے خواب
آس کا روپ محل دست تہی ہے جیسے
بحر امکان پہ کائی سی جمی ہے جیسے
ایسے لگتا ہے کہ جیسے مرا معمورۂ جاں
کسی سیلاب زدہ گھر کی زبوں حالی ہے
نہ کوئی دوست نہ تارا کہ جسے بتلاؤں
اس طرح ٹوٹ کے بکھرا ہے انا کا شیشہ
میرا پندار مرے دل کے لیے گالی ہے
نبض تاروں کی طرح ڈوب رہی ہے جیسے!
غم کی پنہائی سمندر سے بڑی ہے جیسے!
آنکھ صحراؤں کے دامن کی طرح خالی ہے
وحشت جاں کی طرف دیکھ کے یوں لگتا ہے
موت اس طرح کے جینے سے بھلی ہے جیسے
تیرگی چھٹنے لگی، وقت رکے گا کیوں کر
صبح خورشید لیے در پہ کھڑی ہے جیسے
داغ رسوائی چھپانے سے نہیں چھپ سکتا
یہ تو یوں ہے کہ جبیں بول رہی ہے جیسے!