شکست عظمت پندار لے کے آئے ہیں
شکست عظمت پندار لے کے آئے ہیں
ہم اپنی روح سر دار لے کے آئے ہیں
بھروسا ٹوٹتا جاتا ہے ناخداؤں کا
سفینے کے لیے پتوار لے کے آئے ہیں
ہم اس کے بعد تمہیں میٹھی نیند بھی دیں گے
ابھی تو دیدۂ بے دار لے کے آئے ہیں
سفر میں سائے کی شاید کہیں ضرورت ہو
ہم اپنے کاندھے پہ دیوار لے کے آئے ہیں
وہ دوستی تو نہیں دوستوں کی فطرت ہے
مرے لیے جو مرے یار لے کے آئے ہیں
چھری بغل میں دبائے ہوئے ہیں وہ آصیؔ
جو اپنے ہاتھ میں کچھ ہار لے کے آئے ہیں