شکایت کر رہے ہیں سجدہ ہائے رائیگاں مجھ سے

شکایت کر رہے ہیں سجدہ ہائے رائیگاں مجھ سے
نہ دیکھا جائے گا اب سوئے سنگ آستاں مجھ سے


ہے کل کی بات شرمندہ تھا حسن رائیگاں مجھ سے
یہ جلوے مانگتے تھے اک نگاہ مہرباں مجھ سے


نظر رکھ کر قناعت کر رہا ہوں میں تصور پر
یہ جلوے چاہتے ہیں اور کیا قربانیاں مجھ سے


محبت میری بڑھ کر آ گئی ہے بد گمانی تک!
مزا آ جائے ہو جائیں جو وہ بھی بد گماں مجھ سے


مشیت چاہتی تھی مجھ کو محو خواب میں رکھنا
میں کیا کرتا نہ روکی جا سکیں انگڑائیاں مجھ سے


کرشمے قدرت مطلق کے ہیں بالائے شک لیکن
میں جب جانوں کہ بڑھ کر چھین لیں مجبوریاں مجھ سے


جنوں جولان دشت جستجو ہوں کیا خبر اس کی
ملی منزل کہاں مجھ کو چھٹی منزل کہاں مجھ سے