شدت غم سے آہ کر بیٹھے

شدت غم سے آہ کر بیٹھے
عظمت غم تباہ کر بیٹھے


چار ان سے نگاہ کر بیٹھے
کتنا رنگیں گناہ کر بیٹھے


ان کی جانب نگاہ کر بیٹھے
ساری محفل گواہ کر بیٹھے


ان کی دل جوئی ہر طرح سے کی
غیر سے رسم و راہ کر بیٹھے


درد دل تحفۂ محبت تھا
درد دل سے نباہ کر بیٹھے


گل سے عارض پہ شبنمی قطرے
کیوں انہیں انتباہ کر بیٹھے


پارسائی کی چھاؤں میں مجروحؔ
کیسے کیسے گناہ کر بیٹھے