شیخ امام حسن البنا اور عید میلاد النبی ﷺ
شیخ امام حسن البناء، جشن میلادالنبیﷺ کے متعلق اپنا معمول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
مجھے یاد ہے کہ جب ربیع الاول کا مہینہ آتا تو یکم ربیع الاول سے لے کر ۱۲ ربیع الاول تک معمولاً ہر رات ہم حصافی اخوان میں سے کسی ایک کے مکان پر محفلِ ذکر منعقد کرتے اور میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کا جلوس بنا کر باہر نکلتے۔ اتفاق سے ایک رات برادرم شیخ شبلی الرجال کے مکان پر جمع ہونے کی باری آ گئی۔
ہم عادتاً عشا کےبعد ان کے مکان پر حاضر ہوئے۔ دیکھا کہ پورا مکان خوب روشنیوں سے جگمگا رہا ہے، اسے خوب صاف و شفاف اور آراستہ و پیراستہ کیا جاچکا ہے۔ شیخ شبلی الرجال نے رواج کے مطابق تمام حاضرین کو شربت ، قہوہ اور خوشبو پیش کی۔
اس کے بعد ہم جلوس بنا کرباہر نکلے اور بڑی مسرت و انبساط کے ساتھ مروجہ مناقب اور نظمیں گاتے رہے۔ جلوس ختم کرنے کے بعد ہم شیخ شبلی الرجال کے مکان پر واپس آ گئے اور چند لمحات ان کے پاس بیٹھے رہے۔ جب اٹھنے لگے تو شیخ شبلی نے بڑے لطافت آمیز اور ہلکے پھلکے تبسم کے ساتھ اچانک یہ اعلان کیا کہ :
"ان شاء اللہ کل آپ حضرات میرے ہاں علی الصبح تشریف لے آئیں ، تاکہ روحیہ کی تدفین کر لی جائے۔ "
روحیہ، شیخ شبلی کی اکلوتی بچّی ہے، شادی کے تقریباً ۱۱ سال بعد اللہ نے شیخ کو عطا کی ہے۔ اس بچّی کے ساتھ انھیں اس قدر شدید محبت و وابستگی ہے کہ دورانِ کام بھی اُسے جدا نہیں کرتے ۔ یہ بچّی نشوونما پا کر اب جوانی کی حدود میں داخل ہو چکی ہے ۔ شیخ نے اس کا نام روحیہ تجویز کر رکھا ہے۔ کیوں کہ شیخ کے دل میں اسے وہی مقام حاصل ہے جو جسم میں روح کو حاصل ہے۔ شیخ کی اِس اطلاع پر ہم بھونچکے رہ گئے۔ عرض کیا:
"روحیہ کا انتقال کب ہوا؟" -
فرمانے لگے: " آج ہی مغرب سے تھوڑی دیر پہلے"-
ہم نے کہا:" آپ نے ہمیں پہلے کیوں نہ اطلاع دی ؟ کم از کم میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کا جلوس کسی اور دوست کے گھر سے نکال لیتے؟"
کہنے لگے:" جو کچھ ہوا، بہتر ہوا۔ اس سے ہمارے حزن و غم میں تخفیف ہو گئی اور سوگ مسرت میں تبدیل ہو گیا۔ کیا اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی کوئی اور نعمت درکار ہے!"
امام حسن البناء کی ڈائری ، مترجم مولانا خلیل احمد حامدی