شوق نے عشرت کا ساماں کر دیا
شوق نے عشرت کا ساماں کر دیا
دل کو محو روئے جاناں کر دیا
تو نے اے جمعیت دل کی ہوس
اور بھی مجھ کو پریشاں کر دیا
واہ رے زخم محبت کی خلش
جس کو دل نے راحت جاں کر دیا
خود نمائی خود فروشی ہو گئی
آپ نے اپنے کو ارزاں کر دیا
ان کے دامن تک نہ پہنچا دست شوق
اس کو مصروف گریباں کر دیا
بزم میں جب غیر پر ڈالی نظر
آپ نے مجھ پر بھی احساں کر دیا
کچھ بڑھا کر میں نے بہر شرح غم
چاک کو عنوان داماں کر دیا
جھک گئی آخر حیا سے ان کی آنکھ
شوق نے مجھ کو پشیماں کر دیا
پائے بت پر میں نے دو سجدے کئے
کفر کو بھی جزو ایماں کر دیا
اسے خیال لیلیٰ مجنوں نواز
تو نے صحرا کو گلستاں کر دیا
ہو کے زائل قوت احساس نے
مشکلوں کو میری آساں کر دیا
دل نہیں جاتا تھا سوئے راہ دیر
کیسے کافر کو مسلماں کر دیا
تو نے وحشتؔ کیوں خلاف رسم عشق
درد کو رسوائے درماں کر دیا