شوہر کی فریاد

ہم اپنے کمرے میں بے مونس و بے یار بیٹھے ہیں
کہ ڈرائنگ روم میں بیوی کے رشتہ دار بیٹھے ہیں


یہاں ہم بیٹھ کر چائے کے اک کپ کو ترستے ہیں
وہاں سب لے کے بسکٹ کیک کے انبار بیٹھے ہیں


ہمارا بس چلے تو سب کو ہی کچلا کھلا دیں ہم
مگر قانون سے ڈرتے ہیں اور لاچار بیٹھے ہیں


نہ چھیڑو ہم کو اے بی بی پڑوسن طعنے دے دے کر
''تمہیں اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں''


مرے سالے نے پوچھا دولہا بھائی ہیں کہاں باجی
تو وہ بولیں یہیں پر ہیں مگر بے کار بیٹھے ہیں


ہماری بلی اور ہم سے ہی میاؤں ہائے ری قسمت
مگر ہم کیا کریں کہ قول اپنا ہار بیٹھے ہیں


سبھی شادی شدہ ہیں غم زدہ اور اب یہ حالت ہے
مصیبت گھر میں ہے اور خود سڑک کے پار بیٹھے ہیں


ذرا جا کر میاں حماد حسن کو بھی تسلی دو
کہ حضرت شادی کر بیٹھے ہیں اور بے زار بیٹھے ہیں