شرمندہ انہیں اور بھی اے میرے خدا کر

شرمندہ انہیں اور بھی اے میرے خدا کر
دستار جنہیں دی ہے انہیں سر بھی عطا کر


لوٹا ہے سدا جس نے ہمیں دوست بنا کر
ہم خوش ہیں اسی شخص سے پھر ہاتھ ملا کر


ڈر ہے کہ نہ لے جائے وہ ہم کو بھی چرا کر
ہم لائے ہیں گھر میں جسے مہمان بنا کر


اک موج دبے پاؤں تعاقب میں چلی آئی
ہم خوش تھے بہت ریت کی دیوار بنا کر


ہم چاہیں کہ مل جائیں ہمیں ڈھیر سے موتی
سیڑھی کسی پر ہول سمندر میں لگا کر


درکار اجالا ہے مگر سہمے ہوئے ہیں
کر دے نہ اندھیرا کوئی بارود جلا کر


لے اس نے ترا کاسۂ جاں توڑ ہی ڈالا
جا کوچۂ قاتل میں قتیلؔ اور صدا کر