شرمندہ کیا جوہر بالغ نظری نے

شرمندہ کیا جوہر بالغ نظری نے
اس جنس کو بازار میں پوچھا نہ کسی نے


صد شکر کسی کا نہیں محتاج کرم میں
احسان کیا ہے تری بیداد گری نے


محتاج تھی آئینے کی تصویر سی صورت
تصویر بنایا مجھے محفل میں کسی نے


گل ہنستے ہیں غنچے بھی ہیں لبریز تبسم
کیا ان سے کہا جا کے نسیم سحری نے


مایوس نہ کر دے کہیں ان کی نگہ گرم
امید دلائی ہے مجھے سادہ دلی نے


محنت ہی پہ موقوف ہے آسائش گیتی
کھوئی مری راحت مری راحت طلبی نے


وحشتؔ میں نگاہوں کے تجسس سے ہوں آزاد
احسان کیا مجھ پہ مری بے ہنری نے