شرابی اور فقیر

مڈبھیڑ میری ہو گئی کل اک فقیر سے
وہ بھیک مانگتا تھا ہر اک راہگیر سے


میں نے کہا کہ بھائی ہے کیسا تمہارا حال
کہنے لگا کہ ہے کرم رب ذو الجلال


میں نے کہا کہ ریس بھی کھیلی کبھی کہیں
کہنے لگا کہ ریس تو کھیلی کبھی نہیں


میں نے کہا کہ تاشوں سے کچھ مشغلہ رہا
کہنے لگا کہ میں نہیں کھیلا کبھی جوہ


میں نے کہا کہ گانجا بھری سگریٹیں بھی پیں
بولا بڑے وقار سے ہرگز کبھی نہیں


میں کہا شراب کبھی پی ہے یا نہیں
کہنے لگا شراب بری شے ہے بالیقیں


میں نے کہا کہ پھر مرے گھر تک چلے چلو
میں دس رپئے کا نوٹ ابھی دوں گا آؤ تو


کہنے لگا یہ گھر پہ ضروری ہے کیا کرم
دینا اگر ہے تجھ کو تو دے دے یہیں رقم


میں نے کہا نہ عذر کرو میری بات سے
تم کو ملاؤں گا میں شریک حیات سے


تم سے ملا کے اپنی شریک حیات کو
جھگڑے سے تمام ختم کروں گا اٹھو چلو


ہے صاف صاف بات دغا ہے نہ اس میں کھوٹ
اتنی سی بات کہہ کے میں دے دوں گا دس کا نوٹ


بیوی کی بات کا مجھے دینا ہے اک جواب
وہ بھیک مانگتا ہے جو پیتا نہیں شراب