شنگریلا سمٹ: کیا چین اور جاپان بڑی جنگ کی تیاری کررہے ہیں؟
دنیا جس علاقے کو مشرق بعید کے نام سے جانتی ہے اس وقت عالمی سیاست کا اکھاڑا نظر آ رہا ہے۔ عالمی چوہدریوں کی آپس کی کشیدگی گہری ہوتی نظر آتی ہے اور وہ ممالک جو برسوں سے پر امن رہنے کے حامی تھے، کسی خدشے کے پیش نظر اب دفاعی اخراجات میں اضافہ کر کے ہر حال میں پر امن رہنے کے موقف پر نظر ثانی کرتے محسوس ہوتے ہیں۔
برطانیہ کے مشہور تھنک ٹینک انٹرنیشنل انسیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز نے دس سے بارہ جون کو انیسویں شنگریلا سمٹ کا بندوبست کیا، جس کی میزبانی سنگا پور نے کی۔ سہ روزہ سمٹ میں دونوں عالمی چوہدریوں اور ان کے حلیفوں نے ایک دوسرے پر خوب لفظی گولہ باری کی جس میں کشیدگی کی بو پہلے سے خاصی تیز تھی۔ اس میں تو کچھ نیا نہیں کہ چین اور امریکہ اک دوجے کو لکاریں۔ چین امریکہ کو تائیوان سے دور رہنے کا کہے اور امریکہ اسے عالمی نظم برقرار رکھنے کا کہے۔ لیکن نیا اس میں یہ ضرور ہے کہ چین امریکہ کے ساتھ اب جاپان کو نتھی کر کے غرائے اور سمٹ میں چینی وزیر دفاع کے لہجے میں تائیوان کو بنیاد بنا کر کچھ کھلی دھمکیاں ہوں۔ جاپانی وزیر اعظم فیومیو کشیدا چین کا براہ راست نام لیے بغیر بحرالکاہل میں بڑھتی کشیدگی کا اعتراف کریں اور خطرات کے پیش نظر اپنے دفاعی اخراجات میں اضافے کا عندیہ دیں۔ جاپانی وزیر اعظم کی دس جون کو سمٹ کی افتتاحی تقریر ایسے محسوس ہوتی تھی جیسے کوئی شخص برسوں پر امن رہنے کے بعد دوبارہ ہتھیار اٹھانے کی توجیحات پیش کر رہا ہو ۔ میں ایسا اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ جاپان دنیا کا وہ ملک ہے جو آئینی طور پر جنگ کے لیے خود کو مسلح نہ کرنے کا پابند ہے۔ اس کے آئین کا آرٹیکل نو اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ وہ کسی بھی تنازعے میں جنگ کرنے کے اپنے حق سے دستبردار ہوتا ہے۔ اس کے لیے وہ فضائی، بری یا بحری افواج کھڑی نہیں کرے گا۔
لیکن اب جاپانی حکومت اپنے اس آئین میں ترمیم کا بھی سوچ رہی ہے۔ بلکہ میں یوں کہوں کہ اگر جاپانی آئین میں ترمیم آسان ہوتی تو شاید جاپان کے سابق وزیر اعظم شنزو ایبی ایسا کر بھی چکے ہوتے۔ کیونکہ وہ چین اور کوریا کے حوالے سے خاصے حساس نظر آتے تھے۔ دونوں ممالک کے ساتھ جاپانیوں کی تاریخی مخاصمتیں ہیں۔ چین کے ساتھ تو جزائر کی ملکیت پر بھی جھگڑا ہے۔ جاپان بحرالکاہل کے بہت سے علاقے جسے چین اپنا گردانتا ہے، پر بھی اختلاف رکھتا ہے۔ ان تمام وجوہات کے ہوتے ہوئے وہ کیسے چپ چاپ دیکھ سکتا ہے کہ چین عسکری طور پر طاقت پکڑتا جائے۔ اسی لیے وہ امریکہ اور دیگر حلیفوں کے ہمراہ بحرالکاہل میں عسکری انفراسٹرکچر کھڑا کرنے میں سنجیدہ بھی نظر آتا ہے۔ شنگریلا سمٹ میں وزیراعظم فیومیو کی تقریر اسی سنجیدگی کا اظہار تھی۔
تاریخ میں چین، جاپان اور کوریا تینوں بڑی ریاستیں رہی ہیں
لیکن چین اسے کچھ اور طرح دیکھ رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چین کا خیال ہے کہ جاپان کی طرف سے اپنی پر امن رہنے کی پالیسی چھوڑ کر مسلح ہونے کی کاوشیں صرف امریکی پالیسی کا اظہار ہے۔ اپنی وہی پالیسی جس کے تحت وہ چین کو قابو میں کرنا چاہتا ہے اور کواڈ سمیت اوکس جیسے اتحاد بناتا پھرتا ہے۔ شنگریلا سمٹ میں تو شاید چینی وزیر دفاع نے جاپان کو براہ راست نشانے پر نہیں لیا لیکن آج کل چینی اخبارات جاپان کی دفاعی پالیسیوں میں تبدیلی پر کڑی تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ اسے وہ امریکہ کی تھانے داری اور عالمی نظام پر اپنا سکہ جمائے رکھنے کی کاوشوں کے تناظر میں ہی دیکھتے ہیں۔
شنگریلا سمٹ میں چینی وزیر دفاع کی زبان میں سختی بھی شاید اسی لیے تھی کہ تائیوان جسے چین اپنا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں، کے لیے جاپان وہی لائن برملا لے رہا تھا جو امریکہ کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ روز پہلے جو بائیڈن نے بھی چین کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اس نے تائیوان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو امریکہ اس کی حفاظت کے لیے آئے گا۔ پھر شنگریلا سمٹ میں امریکی وزیر دفاع نے بھی چین کو برا بھلا کہا تھا۔ ان سب باتوں کی بنیاد پر شاید چینی وزیر دفاع سخت الفاظ میں یہ پیغام دے رہے تھے کہ چین کسی اتحاد سے ڈرتا نہیں ہے۔ اگر کسی نے تائیوان کی طرف نظر اٹھا کر بھی دیکھا تو چین ہر حد تک جائے گا۔ چین اک دن لازمی تائیوان کو اپنا حصہ بنا کر رہے گا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی کچھ بگاڑ سکتے ہیں تو بگاڑ لیں۔
کچھ تجزیہ کار چینی وزیر دفاع کی زبان کی سختی کو چین کے قبضے کی منصوبہ بندی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ لیکن دوسری طرف کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین روس کی طرح تائیوان پر حملہ نہیں کرے گا۔ کیونکہ ایک تو تائیوان کا دفاع یوکرائن کی نسبت خاصا مضبوط ہے اور دوسرا اس کے قوی امکانات ہیں کہ امریکہ تائیوان کو چین سے بچانے کے لیے براہ راست عسکری طور پر مداخلت کرے ۔ کیونکہ تائیوان میں امریکی مفادات یوکرائن کی نسبت خاصے زیادہ ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ چین بھی جانتا ہے کہ نتیجہ باہمی تباہی کے علاوہ کچھ نہیں۔
اس لیے چین تائیوان پر فی الحال قبضہ نہیں کرے گا۔ ہو سکتا ہے کہ چین تائیوان کی ناکہ بندی کر کے یا کسی اور ذریعے سے اسے گھیر کر مجبور کرے کہ وہ چین کے آگے ہتھیار ڈال جائے اور چین کو لڑے بغیر ہی تائیوان مل جائے۔
ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ چین تائیوان پر حملہ کر بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کی اکھاڑ پچھاڑ میں عالمی امن کا کیا ہوگا جو پہلے ہی غارت ہوتا جا رہا ہے؟ کیا اسے پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا یا نہیں؟ ہم تو دعا کر سکتے ہیں لیکن اس کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔