شمع سر دھنتی رہی محفل میں پروانوں کے ساتھ

شمع سر دھنتی رہی محفل میں پروانوں کے ساتھ
آپ یاد آتے رہے کچھ تلخ عنوانوں کے ساتھ


شام غم شام جدائی درد دل درد جگر
سارے قصے ختم ہو جائیں گے دیوانوں کے ساتھ


شیشہ و پیمانہ ہی زیبائش مے خانہ ہیں
چھیڑ شیشے کی نہیں اچھی ہے پیمانوں کے ساتھ


کیسا وہ دلچسپ منظر ہوگا اے جان عزیز
وہ ہوں ساحل پہ کھڑے اور ہم ہوں طوفانوں کے ساتھ


ہم نہ ہوں گے پر ہماری داستاں رہ جائے گی
یاد ہم آیا کریں گے اپنے افسانوں کے ساتھ


بادۂ عرفاں کا ساغر لے کے عارفؔ ہاتھ میں
سوئے مے خانہ چلا ہے آج فرزانوں کے ساتھ