شمع حق شعبدۂ حرف دکھا کر لے جائے
شمع حق شعبدۂ حرف دکھا کر لے جائے
کہیں تجھ کو ہی نہ تجھ سے کوئی آ کر لے جائے
پہنے پھرتے ہیں جو پیراہن سقراط و مسیح
ان کا بہروپ نہ دل تیرا لبھا کر لے جائے
تو چڑھاوا تو نہیں ہے کہ کوئی سحر مقال
سوئے مقتل تجھے لفظوں میں سجا کر لے جائے
تو کوئی سوکھا ہوا پتہ نہیں ہے کہ جسے
جس طرف موج ہوا چاہے اڑا کر لے جائے
تیری اقدار پر کاہ نہیں ہیں کہ جوں ہی
کوئی لہر اٹھے انہیں ساتھ بہا کر لے جائے
لوگ تو تاک میں ہیں ایسا نہ ہو کوئی تجھے
خود ترے خوف کی زنجیر پنہا کر لے جائے
جا بجا شعلہ بیاں چرب زباں تاک میں ہیں
کوئی تجھ کو بھی نہ باتوں میں لگا کر لے جائے
لفظ تیروں کی طرح وعظ سناں کے مانند
دل وحشی کو کہاں کوئی بچا کر لے جائے