شیخ آخر یہ صراحی ہے کوئی خم تو نہیں
شیخ آخر یہ صراحی ہے کوئی خم تو نہیں
اور بھی بیٹھے ہیں محفل میں ہمیں تم تو نہیں
نا خدا ہوش میں آ ہوش ترے گم تو نہیں
یہ تو ساحل کے ہیں آثار تلاطم تو نہیں
ناز و انداز و ادا ہونٹوں پہ ہلکی سی ہنسی
تیری تصویر میں سب کچھ ہے تکلم تو نہیں
دیکھ انجام محبت کا برا ہوتا ہے
مجھ سے دنیا یہی کہتی ہے بس اک تم تو نہیں
مسکراتے ہیں سلیقے سے چمن میں غنچے
تم سے سیکھا ہوا انداز تبسم تو نہیں
اب یہ منصور کو دی جاتی ہے ناحق سولی
حق کی پوچھو تو وہ انداز تکلم تو نہیں
چاندنی رات کا کیا لطف قمرؔ کو آئے
لاکھ تاروں کی بہاریں ہیں مگر تم تو نہیں