شہر آشوب میں گل ہائے وفا کس کو دوں
شہر آشوب میں گل ہائے وفا کس کو دوں
کون مخلص ہے میں الزام وفا کس کو دوں
شہر کے شور میں صحراؤں کا سناٹا ہے
دیر سے سوچ رہا ہوں کہ صدا کس کو دوں
وہ تو یوسف تھا مگر کوئی بھی یعقوب نہیں
خوں میں ڈوبی ہوئی میں اس کی قبا کس کو دوں
شہر میں ویسے مہربان بہت سارے تھے
کون قاتل تھا مرا ہائے دعا کس کو دوں
شہر بے داد میں ہر شخص ہے پتھر پاشاؔ
کس کی زنجیر ہلاؤں میں صدا کس کو دوں