شہر آشوب لکھوں شہر تمنا لکھوں
شہر آشوب لکھوں شہر تمنا لکھوں
اے دیار غم جاناں میں تجھے کیا لکھوں
نسبتیں ساری ادھوری ہیں تو رشتہ کیسا
بن کے وہ موج اٹھے خود کو میں دریا لکھوں
بے حسی اتنی کہ میں خود سے بھی بیگانہ رہوں
درد اتنا ہے کہ بیگانوں کو اپنا لکھوں
حسن کے روپ ہیں اتنے کہ قلم حیراں ہے
عشق میں ڈوب ہی جاؤں اسے یکتا لکھوں
اپنے گھر کی نئی تاریخ کے اوراق پہ اب
کہیں دیمک کہیں مکڑی کہیں جالا لکھوں
اک نظر سامنے دیوار پہ چسپاں کر کے
اپنا انجام پڑھوں اس کا سراپا لکھوں
عمر بھر ایک ہی تصویر بنائی میں نے
اپنی آوارہ مزاجی پہ ضیاؔ کیا لکھوں