شہر آشوب

اے شہر رسن بستہ
کیا یہ تری منزل ہے
کیا یہ ترا حاصل ہے
یہ کون سا منظر ہے
کچھ بھی تو نہیں کھلتا
کیا تیرا مقدر ہے
تقدیر فصیل شہر کتبہ ہے کہ گلدستہ
اے شہر رسن بستہ
اب کوئی بھی خوابوں پر ایمان نہیں رکھتا
کس راہ پہ جانا ہے کس راہ نہیں جانا پہچان نہیں رکھتا
شاعر ہو کہ صورت گر باغوں کی چراغوں کی بستی کے سجانے کا سامان نہیں رکھتا
جس سمت نظر کیجے آنکھوں میں در آتے ہیں اور خون رلاتے ہیں
یادوں سے بھرے دامن لاشوں سے بھرا رستہ
اے شہر رسن بستہ
مدت ہوئی لوگوں کو چپ مار گئی جیسے
ٹھکرائی ہوئی خلقت جینے کی کشاکش میں جی ہار گئی جیسے
ہر سانس خجل ٹھہری بے کار گئی جیسے
اب غم کی حکایت ہو یا لطف کی باتیں ہوں کوئی بھی نہیں روتا کوئی بھی نہیں ہنستا
اے شہر رسن بستہ