شہید ارماں پڑے ہیں بسمل کھڑا وہ تلوار کا دھنی ہے
شہید ارماں پڑے ہیں بسمل کھڑا وہ تلوار کا دھنی ہے
ادھر تو یہ قتل عام دیکھا ادھر وہ کیسی کٹا چھنی ہے
ہوا ہے نیرنگ آج کیسا یہ دل میں قاتل کے کیا ٹھنی ہے
جدھر سے گزرا زباں سے نکلا یہ کشتنی ہے وہ کشتنی ہے
بگڑ کے ہم کو بگاڑ ڈالا سنوارنا ہی تمہیں نہ آیا
بنو جو منصف بتائیں دل بر کہ اس بگڑنے سے کیا بنی ہے
کبھی ہنساتی ہے یاد تیری کبھی رلاتا ہے ہجر تیرا
یہ قابل دید ہے تماشا یہ سیر بے مہر دیدنی ہے
سنا ہے مقتل میں آج کوئی قتیل حسرت شہید ہوگا
ہوئی جو شہرت یہ شہر میں ہے ہر اک طرف ایک سنسنی ہے
کرم ہے دریا دلوں کی زینت کہاں بخیلوں کی ہے یہ طینت
اسے تونگر نہیں کہیں گے جو کوئی محتاج دل غنی ہے
شکست پیماں کا ہم کو عادی کیا ہے اک مست نوش لب نے
بہ مصلحت ہم ہوئے ہیں تائب یہ توبہ آخر شکستنی ہے
دکھا کے ہم کو جمال رعنا کیا ہے کیوں رہ نورد وحشت
بنے تھے خود رہنما ہمارے یہ رہبری میں بھی رہزنی ہے
طریق ان کا ہی صلح کل ہے جو بے ہمہ با ہمہ نظر ہیں
ہمیں یہ برتاؤ نے دکھایا کہ دوستی میں بھی دشمنی ہے
وفا شعاری ہے جاں نثاری ہے عذر شکوہ نہ عرض مطلب
ہمیں ہیں اک بے نظیر طالب حریف جو ہے وہ یک فنی ہے
وہ آیا تربت پہ بے وفا گل ہر اک سے افسردہ ہو کے پوچھا
یہ کس کی مشہد پہ ہے چراغاں جو عبرت انگیز روشنی ہے
فنائے قلبی ہے فتح عینی ہوا ہے گر محو شرح صدری
یہی ہے مفتاح دل کشائی یہ کشف باطن کی جانکنی ہے
ہوئے جو یہ مبتلائے الفت اسیر دام وصال کے ہیں
ہوائے زلف خیال جاناں بنی ہوئی طوق گردنی ہے
یہ کس قلندر کو مار ڈالا غضب کیا جامہ پوش نخوت
کھڑا ہوا رو رہا ہے جذبہ گری ہوئی پاک دامنی ہے
کبھی نہ ہوں گے مرید جدت نہیں ہیں مشتاق حسن بدعت
ہمارا مشرب ہے صوفیانہ ہمارا مذہب سناتنی ہے
کیا ہے عبرت مثال کیسا خیال عبرت نظر نے ہم کو
کریں تعلق کسی سے کیا ہم جو شکل دیکھی گزشتنی ہے
صفات میں ذات ہے نمایاں ہوئی وہ بالغ نظر ہے نسبت
کیا ہے محو جمال جاناں یہ سیر قلبی کی روشنی ہے
نہ ہوں غرابت اثر یہ اے دل نقوش نیرنگ شان فطرت
کوئی ہوا بے نیاز عالم کوئی ہے مفلس کوئی غنی ہے
ہوئے نہ ایثار و بذل سے اے کریم ہم مستفیض اب تک
تمہارا شیوہ جو ہے سخا کا پسند اخلاق محسنی ہے
فراق گل سے جو نالہ کش ہے قفس میں بلبل شہید جلوہ
بہار گلشن خزاں نما ہے جنوں زدہ ابر بہمنی ہے
ملا نہ جام شراب ساقیؔ کوئی قدح بنگ کا عطا ہو
ہمارے پیر مغاں خضر ہیں سبو میں سبزی بھی تو چھنی ہے