شہید

درد اچانک شروع ہوا جیسے درد شروع ہوتاہے۔
بے وقت بے موقع بغیر اطلاع و اشارے کے، اچانک اس کے بدن میں ایک لہر سی اٹھی جیسے روح کی طنابیں کھینچی جارہی ہیں اور بدن رہائی چاہتاہو۔ لیکن ابھی رہائی کا وقت نہیں ہوا تھا کہ یہ سزاکی گھڑی تھی اس گھڑی اس نے مجھے پکار لیکن آواز حلق سے بمشکل لبوں تک پہنچی کہ دل کے دائیں طرف نیچے پسلیوں کے آس پاس چھپے درد نے ایک چھلاوے کی طرح جست لگائی آواز کو دبوچ لیا نہ جانے کتنی دیر تک وہ بے سدھ پڑا ہانپتا رہاچند سانس سینے کی کال کوٹھری میں جمع ہوئے تواس نے دکھتی جگہ پر ہاتھ رکھ کرپھر پکارا اس کی نخیف و نزار آواز سسک سسک کر کمرے کی حد پار کرکے چھت تک آئی مجھے یوں لگا جیسے کسی نے بہت دور سے بہت گہرائی سے میرانام لیا ہومجھے گمان گزرا کہ جیسے میں نے خود کو پکارا ہے کہ کبھی کبھی میں اپنے ہونے کی تصدیق کرنے کے لیے اپنا نام لیتاہوں اور پھر اثبات میں سرہلاتاہوں۔ اس وقت بھی میں نے سرکو جنبش دی کہ ایک مرتبہ پھر شک میں بھیگی ہوئی صدا نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔
میں سونے سے پیشترچھت پہ تھوڑی دیر کے لیے ٹہلتاہوں کہ یہ میری عادت ہے مجھے بند دروازوں، کھڑکیوں اور روشندان کے پیچھے جلتی بجھتی روشنی دیکھنے اورآوازیں سننے کاشوق ہے۔ اس کے علاوہ سامنے والے پل سے گزرتے ان لوگوں کو دیکھابھی مجھے پسندہے جو سنیما کا آخری شو دیکھ کر آرہے ہوتے ہیں وہ مجھے بھلے لگتے ہیں پل کے ایک سرے پہ لگے بجلی کے اکیلے کھمبے کی ناکافی روشنی میں سڑک کھلے تھان کی طرح پھیلی نظرآتی ہے۔سنیما کے آخری شو کے تماشائی اس رسہ پرسے گزرتے وقت مجھے بہت لبھاتے ہیں فلم کے مکالمے بولتے۔ ایک دوسرے کوچھیڑتے اوراونچی صداؤں میں گیت گاتے جب وہ پل سے گزررہے ہوتے ہیں توفلم کاایک نامکمل سین بن جاتاہے اس دوران جب کبھی کوئی رکشہ یا ٹیکسی ان کے قریب سے گزرتی ہے تو روشنی اور شورکے بے ہنگم پن میں ان کے سائے مجسم ہو جاتے ہیں مجھے یہ لوگ ایسی فلم کے ایکسٹرا کردار نظر آتے ہیں جو کبھی مکمل نہیں ہوگی جونہی تماشائی گذرجاتے پل ڈولی اٹھنے والے گھرکی طرح اداس ہو جاتا ہے تب میں واپس مڑتا ہوں اوراپنے کمرے میں آکر سوجاتاہوں۔لیکن آج بہت کم تماشائی تھے لوگوں نے نہ جانے کیوں آخری شو دیکھناکم کر دیا ہے مجھے صرف ایک رکشہ تیزی سے سڑک پہ دوڑتا پل کراس کرتا نظرآیا۔ اور پھر ایک ٹیکسی زن سے گزرگئی شاید اسٹیشن کی طرف جانے والے مسافرلے جارہی تھی۔ تھوڑی دیرتک پل تنے رسے کی طرح اکیلا دکھائی دیا اور پھر دو آدمی موڑ سے ظاہرہوئے ان کی اونچی آواز سے ظاہرہورہا تھا کہ جیسے انہوں نے چفیرے کے خوف سے بچنے کے لیے بلند آہنگی کا سہارا لے رکھا ہو۔ جونہی وہ دونوں پل پار کرکے سڑک کے آخری موڑ پراوجھل ہوئے ایک بیکراں مشکوک سناٹا سا پھیل گیا۔ اس تہہ درتہہ پل کی مشکوک خامشی میں اس کی فریاد میرے نام کا سہارا لیے مجھ تک پہنچی تو میں جلدی سے پلٹا دل میں وسوسوں کے انبار لیے نیچے کی طرف دوڑا سیڑھیاں پھلانگتا ہواکمرے میں داخل ہوگیا۔
سامنے وہ پڑاتھا۔
اس کاآدھا دھڑ بستر سے نیچے لٹک رہا تھا ایک ہاتھ سینے کے نیچے پسلیوں کے آس پاس کے ماس میں پیوست تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس نے فرش کی ٹیک لے رکھی تھی۔
’’سعدی‘‘ میرے منہ سے چیخ نکلی۔
اس نے لاچار نگاہوں سے مجھے دیکھا، بمشکل لب ہلائے۔
’’در۔۔۔درد۔۔۔ میں مررہاہوں‘‘۔
میں نے پہلو میں ہاتھ دے کراسے اٹھایا بستر پہ سیدھا لٹایا۔ اس کی پھٹی ویران آنکھوں میں کوئی ڈوب رہا تھا۔ میں یاوہ خود یا ہم دونوں بس ایک چیز تھی جو اس کی گہری پرکشش آنکھوں کی تہہ میں اتررہی تھی۔
’’سعدی! کیاہوگیاہے سعدی اللہ خیر کرے گا‘‘۔
جواب دینے کے لیے اپنا احوال بتانے کے لیے اس نے اپنے ہونٹ ہلائے مگرکراہوں کے سوا کچھ نہ نکلا۔ سیخ میں پروئی ہوئی آنکھوں نے میز پہ رکھے گلاس کارخ کیا تو میں نے جلدی سے ہاتھ بڑھا کر پانی بھراہوا گلاس اس کے ہونٹوں سے لگا دیا۔ پانی کے چند قطرے کسی ٹھوس شے کی طرح اس کے حلقے سے اترے تو ایک عجیب سی آواز ابھری جیسے کوئی کنکر سوکھی شاخ سے ٹکرایا ہے۔
اس درد کی کہانی نرالی ہے۔ ڈاکٹروں نے آخری مرتبہ دیکھنے کے بعد کہا تھا کہ اپنڈکس کاکوئی اعتبار نہیں کب پھٹ جائے آپریشن کرالو۔ اس نے حامی بھر لی تھی۔ میں نے اسے کہا تھا کہ خطرے سے قبل خطرے کا سدباب خطرہ ختم کر دیتا ہے اس نے میری بات کی تائید کی تھی اور کہا تھا جونہی فرصت ملے گی اپنے بدن کی اس فالتوناڑ سے نجات پالوں گا اور اب اس وقت رات کے اس پہر اچانک درد نے اس کے بدن پر شب خون مارا۔
’’سعدی۔ اٹھو جلدی کرو۔ ہسپتال چلتے ہیں‘‘۔
میں نے کمر میں ہاتھ ڈال کربستر سے نیچے اتارا پاؤں میں سلیپر پہننے کی کوشش میں کئی مرتبہ وہ لڑکھڑا کرگرا لیکن اذیت سے نجات کی آرزو نے اسے سہارا دے رکھا تھا۔
باہر گلی میں رات اپنے جوبن پہ تھی۔ چاندکی پندرہویں تھی اور ہم تھے یا پھرا یک پراسرار مشکوک سناٹا۔ اسے میں نے اپنے ساتھ ایسے لپٹا رکھا تھا کہ ہمارا سایہ ایک اکائی بن گیا۔ چاند کی روشنی میں اپنے قدموں کے پاس اس سائے کو دیکھ کر یوں لگا جیسے میں نے اسے اوڑھ لیا ہے وہ میرے وجود کے تابوت میں ایک لاش کی طرف فٹ آگیا ہے پتہ نہیں کہ کس طرح وہ مجھ سے جڑا گھسٹ گھسٹ کرچل رہاتھا سنسان گلی سے گزر کر جب ہم پل پہ پہنچے تو میں نے پکارا۔
’’سعدی درد ہورہاہے۔ اب بھی‘‘۔
اس نے تشکر میں بھیگی نظروں سے مجھے تکتے ہوئے لبوں کو دانتوں تلے دبایا سسکاری روکی اور رک رک کر بولا۔
’’یہ ۔۔۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔۔ یہاں کوئی شے پھٹ رہی ہے۔ خدا کے لیے یہاں دباؤ میں ۔۔۔۔۔ میں ہم مر، مر، مر۔۔۔‘‘
میں جانتاتھا کہ وہ کتنی تکلیف میں ہے۔ مگر لاچارہے۔ اس وقت بے آباد سڑک پہ کوئی سواری نظر نہیں آرہی تھی۔ ریلوے اسٹیشن کی پٹڑی پہ کسی انجن نے سیٹی بجائی تو میں نے بے دھیانی میں مڑ کر دیکھا دورتک پھیلی اجلی چاندی میں ویران سڑک پر اکلاپے کے سواکچھ نظرنہ آیا۔
’’ابھی ہسپتال پہنچ جائیں گے سب ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔
’’بہت مشکل ہے میری جان نکل رہی ہے اف خدایا۔ کوئی چیز اندر ٹوٹ رہی ۔۔ سس۔۔۔ سریا مارا جارہاہے۔ کوئی اندر ہی اندر میں مررہا ہوں یہاں اس جگہ۔۔۔۔؟‘‘
اس نے کراہ کربدن ڈھیلاچھوڑااور میرے ہاتھوں سے پھسل کر سڑک پہ گرنے لگا کہ میں نے اسے کلاوے میں بھرلیا۔
وہ میرے بچپن کا دوست تھا۔ اس نے جس توانائی کے ساتھ زندگی گزاری تھی اسے یاد کر کے مجھے اس کی موجودہ حالت پہ رونا آرہاتھا۔ میں نے بہت کوشش کے بعد تسلی کے لفظوں کو اپنے لباب سے بھگویا، سینے میں پھیلی رقت پہ ہاتھ رکھا اورکہا۔
’’سعدی یار، حوصلہ کرو۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ میں تیرے ساتھ ہوں۔ ابھی ہسپتال پہنچ جائیں گے میں تیرے ساتھ ہوں‘‘۔
اس نے درد کی جگہ کو دونوں ہاتھوں سے دباتے ہوئے کہا۔
’تت۔ تم، ہاں، تم میرے ساتھ ہو لیکن میرا اپنا ساتھ چھوٹ رہاہے‘‘۔
’’سعدی یار حوصلہ کرو۔ کچھ نہیں ہوا۔ سب ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔
پل ہمارے وجود سے آبادہو چکا تھا۔ اس کے ایک سرے پہ لگے واحد بجلی کے کھمبے کی ناکافی روشنی میں ہم شرابیوں کی طرح گزررہے تھے۔
’’کوئی سواری نہیں۔ ہسپتال بہت دور ہے میں مررہاہوں۔ یہاں ہاتھ رکھو دباؤ خداکے لیے اف، مجھے واپس لے چلو۔ میں ، میں، مرمرمر‘‘ جونہی لفظوں نے ساتھ چھوڑا کراہوں نے آواز کی صورت پکڑ لی اور تہہ درتہہ مشکوک سناٹے میں اس کی سسکیاں چابک کی طرح شونک رہی تھیں۔ ان آہوں کا خاتمہ اسوقت ہوا جب دور سے آتی رکشہ کی آواز ہمارے قریب آکر بڑھ گئی۔
زندگی میں پہلی مرتبہ رکشہ کی کرخت بھری آواز نے مجھے لبھایا۔ میں نے لپک کر اسے رکشہ میں ڈالا اورخود اسکے پاس سمٹ کر بیٹھ گیا۔
’’ہسپتال چلو۔ جلدی کرو۔‘‘
رکشہ والے نے پلٹ کر دیکھے بغیر سپیڈ پکڑ لی۔ میں نے بجلی کے اکلوتے کھمبے کی ناکافی روشنی میں رکشہ والے کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی۔ سفید باریشی چہرہ سرپہ رومال اس کے علاوہ مجھے کچھ نظر نہ آیا وہ بت کی طرح ہینڈل پہ ہاتھ جمائے بازو کھولے بیٹھاتھا۔ صرف ہاتھوں کی خفیف حرکت سے احساس ہورہا تھا کہ اسے ہسپتال پہنچنے کی بہت جلدی ہے۔
اچانک سعدی ایک طرف کو دھرا ہو گیا۔ اس کاچہرہ درد کے مارے سکڑ کر اس کپڑے کی طرح ہوگیا جسے بھگو کرنچوڑنے کی کوشش کی گئی ہوطویل سانسوں اور اذیت بھری ہچکیوں کے درمیان اس نے بولنے کی کوشش کی۔
’’بہت مشکل ہے پہنچنا۔ میں مررہا ہوں تم میری ماں کو ابھی مت بتلانا ۔ آہستہ آہستہ اسے خبر کرناورنہ وہ اجڑ جائے گی۔ خط لکھ دینا میری بیماری کا اچھا اور ، اور پونم کوبھی اسے میں نے کل کا وقت دے رکھا تھا۔ معذرت کردینا کہنا میں مصروف ہوں۔ مرنے کی خبر نہ دینا۔ اس نے بھی کہا تھا آپریشن کرالو۔ لیکن ۔ اب ۔اب کیا ہو سکتا ۔۔۔
’’سعدی ہوش کرو۔ تم بالکل ٹھیک ہو‘‘۔
اس نے اپنے ہونٹ میرے کان سے لگا رکھے تھے۔ دونوں ہاتھ درد والی جگہ پر بدستور جمے ہوئے تھے اور آدھا دھڑ میری گود میں تھا میرے کانوں میں اس کی سرسراہٹ جاگی۔
’’دفتر سے میں نے ایڈوانس لیا تھا سات سو میرے جی پی فند سے واپس کر دینا پونم کے لیے کمرے میں میز کی دراز میں ایک گھڑی رکھی ہے بخشی لایا تھا حج سے یاد ہے نا۔۔۔‘‘
وہ گھڑی پونم کودے دینا۔ ایک آدھ دن باندھ لے گی بعد میں تو اسے پتہ چل جائے گا اور بخشی کوکہنا میں اسے یاد کررہاتھا ادھر کمرے میں میرے تکیہ تلے جائے نماز رکھی ہے وہ بھی بخشی لایا تھا۔
میری اماں کو بھجوا دینا یار۔ بخشی بہت اچھا ہے۔ میرے بعد ملتے رہنا۔ پونم کو مت بتانا تمہیں دیکھ کر اسے میں یاد آؤں گا اداس ہو گئی ہے ناں۔
آنسوؤں کے قطرے میرے گالوں سے بہتے، لبوں تک آئے تو میں نے چادر سے زبان باہر نکال کر انہیں سنبھالا اور ان کی نمی سے اپنی آواز کو تر کیا۔
’’سعدی یار۔ میرے بانکے۔ مت کرو ایسی باتیں تم بالکل ٹھیک ہو ہم ہسپتال پہنچنے والے ہیں۔ میں تیرے ساتھ ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا ایک منٹ کی بات ہے‘‘۔
اس نے گہری سانس لے کر اپنا سر چھاتی سے ٹکا دیا۔ اور درد والی جگہ کو پوری قوت سے دباتے ہوئے بدن کے تناؤ کو آخری حد تک پھیلا دیا۔ ابھی اس نے نہ جانے درد کے ساتھ کتنی دیر آنکھ مچولی ہونا تھی کہ اچانک رکشہ ایک جھٹکے سے رک گیا۔
سامنے چوراہے پر پولیس کا پہرا تھا۔ چاروں سڑکوں کو ڈرم رکھ کر ٹریفک کے لیے بند کر دیا تھا۔ اکادکا کھڑی گاڑیوں کی چیکنگ ہورہی تھی ایک کونے میں بنے کھوکھے کے سامنے اسٹور میں جلتی آگ پہ چائے کی دیگچے رکھے تھے۔ اور قریب ہی ایک بوڑھا شخص سگریٹ کا چھابہ لیے بیٹھا تھا۔ چوراہے کے عین وسط میں ایک بھورے رنگ کی کتیا اطمینان سے نیم دراز انپے پلوں کو دودھ پلارہی تھی۔ جس سڑک سے ہم آئے تھے اس کے سامنے چوک پہ رکھے ڈرموں کے پاس کھڑے سپاہیوں نے کرسیاں اور چارپائیاں بچھارکھی تھیں۔ سپاہی چارپائیوں پہ نیم دراز ، کرسیوں پہ بیٹھے اور چوراہے میں ٹہلتے بہت غیر مانوس اور پرائے لگ رہے تھے۔
ہمیں رکشہ کی پچھلی سیٹ پہ نیم دراز دیکھ کر ایک سپاہی نے ٹارچ کی روشنی اندر پھینکی اور بولا۔
’’ہونہہ، پی رکھی، باہر آؤ‘‘۔
’’میرا دوست ہے۔ بیمار ہے بہت سخت‘‘۔
سپاہی نے بے یقینی سے دوبارہ اندر جھانکا اور پھر ٹارچ پتلون کی بیلٹ میں اڑس کر بولا۔
’’زیادہ پی کر بندہ بیمار ہوجاتا ہے۔ باہر نکلو۔ میاں صاحب ادھر گوریلوں کے بجائے نشی ہیں‘‘۔
اس کی پرجوش تیز آواز سن کر سپاہی بھڑوں کی طرح رکشہ کے چاروں طرف پل پڑے۔
’’کون ہے باہرنکلو‘‘۔
میں نے بہت دشواری کے ساتھ رکشہ سے باہر جھانکا متعدد چہروں میں ایک ہمدرد چہرے کی خواہش لیے باری باری انہیں دیکھا اور پھر مایوس ہو گیا۔
’’میرا دوست ہے اسے درد ہے ہسپتال جارہے ہیں ہم‘‘۔
صحیح صحیح بتاؤ کیا چکر ہے۔ ادھر کرو منہ سونگھاؤ ہاں ذرا زور سے سانس باہرنکال نا۔ پی کر اوپر کیاکھایا ہے کہ بو مر گئی ہے۔ اوئے اس دوسرے کی حالت دیکھو نشہ میں دھرا ہوگیا ہے۔
اس لمحہ سعدی کے منہ سے ایک ہولناک چیخ بلند ہوئی رکشہ کے گرد کھڑے سپاہی یہ غیر انسانی صدا سن کر کئی قدم پیچھے ہٹ گئے۔
’’خدا کے واسطے جانے دو۔ یہ مررہا ہے یہ مررہا ہے‘‘۔
’’میرا خیال ہے کوئی اور ڈرامہ ہے۔ شناخت کراؤ اپنی جلدی کراؤ شناخت‘‘۔
ان گنت یکساں چہروں اور آوازوں میں ایک آواز ابھری اور پھر اپنے سوال کے جواب کے لیے ہمارے اوپر تن گئی۔
’’شناخت‘‘ میں بے بسی سے بولا۔ ’’ہماری کوئی شناخت نہیں ہے‘‘۔
’’کوئی ماں باپ آگے پیچھے۔ اتنی رات گئے گھوم رہے ہو۔ پتہ ہے ادھر گوریلا آئے ہوئے ہیں‘‘۔
’’یہ مر رہا ہے درد سے خدا کے لیے ہسپتال جانے دو‘‘۔
میری آواز روتے بچے جیسی بن گئی۔ سارا بدن غصہ کی شدت سے کانپنے لگا۔
’’اوئے رو رہاہے اتنا بڑا ہو کر اچھا ادھر ہو‘‘۔
ان گنت یکساں ہاتھوں میں سے ایک ہاتھ آگے بڑھا۔ ہم دونوں کے جسم ٹٹولنے کے لیے اور پھر بغلوں، چھاتی، نیفے کے نیچے کے ممنوعہ حصے اور پنڈلیوں کو جھٹکوں نے بنھبور ڈالا۔
’’خالی ہیں رکشہ والے کا نمبر نوٹ کرلو‘‘۔
میں نے اپنی گلوگیر آواز میں رکی رکی سسکیوں میں رکشہ کے چلنے کی آواز سنی اور چندلمحوں کے لیے سعد ی بیگانہ ہوگیا بیگانگی کے اس لمحہ میں سعدی نے اپنے کھنچے لبوں کو میرے کانوں سے لگایا اور درد بھری سرگوشیوں میں بولا۔
’’ابھی سے حساب کتاب شروع ہو گیا کون تھے کیا چاہتے تھے اب کیا رہ گیا ہے جس کی شناخت کرائیں۔ تم میری ماں کو ذرا تاخیر سے میرے گزر جانے کے بعد بتانا آہستہ آہستہ جو ادھار میں نے لیا ہے ناں دفتر سے، واپس کر دینا اورہاں پونم کوکہنا اگر کوئی اور اچھا لگے، پسند آجائے۔ تو اپنا لینا جو گزر گیا اس کا انتظار کیا اب ہم کہاں جارہے ہیں کس طرف جارہے ہیں۔ کب تک چلتے جائیں گے یہ سرنگ کیسی ہے۔ یہ روشنیاں یہ لوگ کون ہیں یار تم بولو نا۔ میرادرد، میں تو عادی ہو گیا ہوں۔ عادی۔۔۔ آآہاآ۔‘‘
اس نے کربناک چیخ کے ساتھ پہلو بدلا تو آدھا دھڑ بھاگتے رکشہ سے باہر چلا گیا ہے میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کی ٹانگوں کو اندر کیا واپس اپنی پرانی جگہ پر رکھ کر اپنے ایک ہاتھ سے اس کی دکھتی جگہ کو دبانا شروع کر دیا اور دوسرے ہاتھ سے اپنے چہرے پہ پھیلی آنسوؤں کی لکیروں کو صاف کیا اس کے بدن میں ٹھنڈک جاگ رہی تھی مسلسل کراہوں نے مجھے بھی لاغر کر دیاتھا۔ لاغری کے اس سفر میں ہم مرکزی سڑک پر پہنچ گئے۔ آگے میل ڈیڑھ میل کے فاصلے پر ہسپتال تھا۔ راستہ میں اکا دکا پولیس کی گاڑیاں نظر آرہی تھیں۔ میں نے اندازہ لگانے کے لیے کہ ابھی منزل کتنی دور ہے گردن باہر نکال کر سامنے دیکھا۔
سامنے سڑک کے درمیان نیلی پیلی جلتی بجھتی بتیاں نظرآرہی تھیں۔ جوں جوں رکشہ قریب ہوتاگیا صورتیں واضح ہونے لگیں۔ ایک مرتبہ پھر رکشہ نے بریک لگائے سامنے شہریوں کی پہریدار ٹولی اورچند سپاہی کھڑے تھے۔ سڑک کے ایک کنارے فٹ پاتھ پہ چند نوجوان کیرم بورڈ کے گرد بیٹھے تھے۔ ان کے قریب ہی چار آدمیوں کی ٹولی تاش کھیل رہی تھی۔ دوسرے کنارے پہ دکانوں کے بنددروازوں کے آگے کرسیاں ڈال کر سپاہی بیٹھے تھے۔ اور سڑک کے عین وسط میں جیپ کھڑی تھی جس نے رکنے کا اشارہ کیا تھا جیپ کے بونٹ کے سہارے چند سپاہی کہنیاں ٹکائے سگریٹ پی رہے تھے بونٹ کے وسط میں بڑا سا تھرماس رکھا تھا۔ جس پہ بنے نقش و نگار اس چاند رات میں اورمرکزی سڑک کی روشنیوں میں بہت واضح نظر آرہے تھے۔
رکشہ رکتے ہیں سفید پوش شہری نے ایک مسلح لڑکے کے ساتھ آگے بڑھ کر پوچھا۔
’’کون ہے بھئی اس وقت؟‘‘
’’مریض ہے ۔ ہسپتال لے جارہا ہوں‘‘۔
’’مریض اس وقت؟‘‘ سفید پوش شہری نے مشکوک انداز میں کہا ’’یہ تو گوریلوں کے پھرنے کا وقت ہے۔ آپ کو پتہ نہیں ملک میں دشمنوں کے ایجنٹ گھس آئے ہیں‘‘۔
’’ہماری تو کسی سے دشمنی نہیں ہے۔ ہم تو۔۔۔‘‘
’’کیا مطلب ہے۔ مریض کو دن کے وقت ہسپتال کیوں نہیں لے گئے۔ اچھا۔ اچھا ۔ کارڈ نکالو اپنا‘‘۔
سفید پوش شہری کی باتیں سن کر سپاہی بھی جیپ کے بونٹ کا سہارا چھوڑ کر رکشہ کے پاس آگئے۔
’’خدا کے لیے جانے دیں اپنڈکس کا مریض ہے۔ بہت خطرناک حالت ہے۔ درد سے مراجارہا ہے‘‘۔
’’پچھلے چوک پہ سپاہیوں نے ہمارا منہ بھی سونگھا تھا پوری تسلی کی تھی۔ خدا کے لیے ہمیں جانے دیں بہت درد ہورہا ہے مرجائے گا‘‘۔
’’پچھلا چوک کیا مطلب؟‘‘ کیا پتہ وہ جعلی سپاہی ہوں۔ کیوں جی ٹھیک ہے ناں یہ گوریلے تو ہرروپ بدل لیتے ہیں‘‘۔
’’خدا کے لیے آپ یقین کریں۔ بہت تکلیف میں ہے میرا دوست۔ آپ ہمارے ساتھ ہسپتال چلیں یہ مرجائے گا اگر دیر ہوگئی تو یہ مرجائے گا۔ مرجائے گا‘‘۔
نہ جانے کب تک میری سسکیاں رونے کی آواز میں ڈھلتی رہیں نہ جانے کب تک ان کے سوالوں کے تیر ہم پہ چلتے رہے مجھے تو اتنا پتہ ہے کہ میرے مسلسل رونے کا سلسلہ اس وقت ٹوٹا جب رکشہ کے جھٹکوں نے سعدی کے جسم کو ہاتھ سے مسلسل لگاتارٹکرانا شروع کیا میں نے آنکھوں کے سامنے پھیلی دھند کو صاف کیا آنسوؤں کی نمی چہرے سے پونچھی اور منہ کے نمکین ذائقہ کو لعاب میں شامل کرکے حلق تر کیا تب میری نگاہ سعدی کے چہرے پہ گئی۔ جہاں زندگی اپنی آخری لو دے رہی تھی۔ بھاگتے رکشہ میں میں نے اس کے بدن کی ٹوٹتی طنابوں کی آواز سنی میں نے بچپن میں سنا تھا کہ میت کا بوجھ زندہ انسانوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس وقت سعدی مجھے بہت بوجھل لگ رہا تھا۔ میں نے کان اس کے دل کے ساتھ لگا کر دھڑکن سنی۔ نبض پہ ہاتھ رکھا۔ چہرے کا طواف کیا، سب کچھ ٹھیک تھا۔ صرف تھوڑی دیر کی بات تھی۔
ہسپتال کے گیٹ سے داخل ہو کر رکشہ ایمرجنسی کے دروازے کے سامنے جا رکا۔ میں نے سعدی کو اپنے ساتھ لپٹا کر باہر نکالا رکشہ والے کے ہاتھ میں دس دس کے دو نوٹ رکھے اور پھر اپنے عقب میں رکشہ کی کرخت آواز سنی جو بہت جلد دور جا کے غائب ہو گئی۔
اب پھر چار چفیرے اک تہ در تہ اجڑی مشکوک خاموشی تھی جس کے وسط میں، میں سعدی کو گھسیٹ کر برآمدے تک لایا۔ فرش پہ اسکے بدن کے گھسٹنے کی سرسراہٹ سسکیوں کی طرح ابھری تو ویرانی اور بڑھ گئی۔ برآمدے میں اطمینان کے ساتھ اسے میں نے قبلہ رخ لٹا دیا۔ اور خود اندر کمرے میں چلا گیا جہاں ڈاکٹر آنکھوں میں جگراتے کی سرخی لیے سگریٹ پی رہا تھا۔
مجھے دیکھتے ہی وہ کرسی پہ تھوڑا سا ہلا، آگے کوجھکا، اٹھنا چاہا لیکن رک گیا کہ میں ہاتھ پھیلائے باہیں کھولے اس کے روبرو فریاد کیے جارہا تھا۔
’’مجھے ایمبو لینس چاہیے۔ ڈاکٹر لاش کے جانے کے لیے واپسی پر وہ مجھے روکیں گے دیر ہو جائے تو اپنڈکس پھٹ جاتا ہے ناں۔ لاش خراب ہوجاتی ہے۔ آپ مجھے واپسی کے لیے ایمبولینس دیں گے نا۔ پلیز ڈاکٹر خدا کے لیے مجھے ایمبو لینس۔۔۔‘‘