کیا شہباز گل کو بغاوت کے مقدمے میں سزا ہوسکتی ہے؟
سوال یہ ہے کہ کیا شہباز گل پر بننے والے بغاوت کے مقدمے میں ان کو سخت سزا دی جاسکے گی؟ ان سے پہلے بھی بہت سے سیاست دان ریاست اور اداروں کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں، کہیں مقدمے بنے اور کہیں نہیں، اورسزائیں تو بہت ہی کم ہوسکیں۔ تو پھر شہباز گل کے معاملے میں پہلے کیسوں سے کیا بات مختلف ہے۔؟
شہباز گل بغاوت کیس ہے کیا؟
پی ٹی آئی دور میں وزیراعظم عمران خان کے مشیر اورپنجاب کابینہ میں وزیر رہنےوالے شہباز گل اس وقت ریاست پاکستان کے خلاف بغاوت کے مقدمے کا سامنا کررہے ہیں۔ ان پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ایک ٹی وی انٹرویو میں اور اپنے ٹویٹس میں ایسی زبان یا الفاظ استعمال کیے ہیں جو براہ راست فوج میں بغاوت پر اکسانے کا ایجنڈہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس الزام میں کتنی صداقت ہے اور اس پر عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے ، یہ بات تو آنے والے دنوں میں ہی پتہ چل سکے گی۔ فی الحال انہیں بنی گالہ کے قریب سے ، یا شاید بنی گالہ سے ہی گرفتار کرکے جسمانی ریمانڈ پر حوالہ پولیس کیا گیا ہے۔
شہباز گل کے کیس میں کیا مختلف ہے؟
سیاسی مبصرین اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان میں بغاوت کے مقدمات پہلے بھی قائم ہوتے رہے ہیں اور سیاست دان بھی فوج اور ریاست کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں۔ اس طرح کے بیانات میں خواجہ آصف، مریم نواز اور خود نواز شریف تک کے نام لیے جاسکتے ہیں لیکن شہباز گل کی طرف سے باتیں زیادہ براہ راست کی گئی ہیں اور یہ زیادہ سنجیدہ نوعیت کی ہیں۔ اسی طرح سابقہ مقدمات اور شہباز گل پر قائم مقدمے میں ایک فرق یہ ہے کہ پہلے اس طرح کی درخواستیں مختلف شہریوں کی طرف سے عدالت کو دی جاتی تھیں لیکن اس بار بارہ راست ایک مجسٹریٹ کی مدعیت میں ایک سرکاری اہلکار کی درخواست پر انہیں گرفتار کیا گیا ہے۔ نیز اس بار جو دفعات اس مقدمے میں شامل کی گئی ہے ، وہ بھی زیادہ سنگین نوعیت کی ہیں۔
پھر اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات کیا ہوسکتی ہے کہ ایک ایسے حادثے پر یہ بیانات اور پراپیگنڈہ سامنے آیا ہے جس پر اس طرح کے کسی بیان کا کوئی جواز ہیں نہیں تھا۔ جنھوں نے اپنی جانیں ہیلی کاپٹر حادثے میں گنوائیں، وہ کوئی پکنک منانے نہیں نکلے تھے، وہ انسانیت اور ہمدردی کے لیے نکلے تھے، ایک قومی مشن پر تھے۔ اس حادثے پر تو ہر طرف سے شہدا کےوارثین کے ساتھ یکجہتی اور ہمدردی کا اظہار ہونا چاہیے تھا، نہ کہ وہ جو کیا گیا ہے۔
کیا شہباز گل کو سزا ہوسکتی ہے؟
ماضی میں تو ایسا ہوتا رہا ہے کہ مختلف لوگوں کو بغاوت کے مقدمے میں سزائیں ہوچکی ہیں۔ پاکستان بننے کے فوری بعد ہونے والی اگرتلہ سازش سے جاوید ہاشمی والے مقدمات تک سزائیں ہوئی بھی ہیں۔ لیکن دوسری طرف بہت سے بغاوت کے مقدمات میں ملزمان کو ضمانت پر یا بری بھی کیا گیا ہے۔
شہباز گل بغاوت کیس کا معاملہ بھی ہمارے ہاں کے سیاسی منظر نامے سے ہٹ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔ ایک طرف ریاست مخالف بیانیہ کو کچھ لوگ سیاست دانوں کی فتح قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ دیگر سیاستدانوں کو اس طرح کے بیانات کو اپنی شہرت اور تعلقات بنانے کی کوشش بھی گردانتے ہیں۔ لہٰذا اس سوال کا جواب بھی ہمارے ہاں کے سیاسی محرکات ، جوڑ توڑ اور فیصلوں سے مشروط ہے۔
آنے والے دنوں میں حالات کی طرف کی کروٹ لیتے ہیں، الیکشنز کب ہونے ہیں، نومبر سے پہلے اور بعد کی صورت حال کا ہوگی اور یہ کہ پی ٹی آئی کے مجموعی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات ٹھیک ہوتے ہیں یا مزید خرابی کی طرف جاتے ہیں۔ جب تک ان سب سوالات کے حوالے سے پیش رفت نہیں ہوتی، شہباز گل پر قائم بغاوت کے مقدمے کے فیصلے سے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ شہباز گل کے لیے غیر مشروط معافی کا آپشن شاید کچھ کام کرسکے، یعنی اب کی معافی اور آئندہ کی یقین دہانیوں پر بھی کوئی ضمانت اور برات والا معاملہ ہوسکتا ہے۔
شہباز گل اور سیاست دانوں کو بچنا چاہیے:
شہباز گل صاحب کے لیے تو ہمارا ہی نہیں، ہر ہوش مند اور ذی عقل پاکستانی کا مشورہ یہی ہوگا کہ جناب آپ کی زبان کی تیزی ہی آپ کو لے ڈوبی ہے۔ آپ کے قریبی یار دوست تو پہلے ہی آپ کی اس روش اور انداز سے پریشان تھے اور آپ کے قریب سے چھٹ رہے تھے، لیکن اب آپ کے بڑبولے پن نے آپ کے محبوب لیڈر سمیت پوری پارٹی کو مشکل سے دوچار کردیا ہے۔
ایک بات البتہ شہباز گل صاحب اور ان کے ساتھ ساتھ دیگر سیاستدانوں کو بھی سمجھنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ اپنی سیاست کے لیے، یا اپنی جماعت کے سربراہوں کی خوشنودی و قربت کے لیے ، اداروں کا نام لینے اور انہیں بدنام کرنے کی روش ترک کردیں۔ گزشتہ ایک عشرے کی سیاست میں ہمارے سیاست دانوں کا یہ وطیرہ ہی بن گیا ہے کہ جب بھی اور جب تک وہ اقتدار میں ہوتے ہیں ، ون پیج کا نعرہ بلند کرتے ہیں، لیکن جونہی اقتدار سے علیحدہ ہوتے ہیں، تو اداروں کی مخالفت اور بدنامی کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
اداروں کو بدنام کرنے کی بجائے سیاست دانوں کو اعلیٰ اقدار اور احترام کا کلچر اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے۔ اداروں کے خلاف بات کرنے سے نہ آپ کا قد بڑھتا ہے اور نہ آپ کا احترام محب وطن پاکستانیوں کے دلوں میں قائم رہتا ہے، کیونکہ جتنا بھی پروپیگنڈا ہوجائے، ایک بات حقیقت ہے ، اور وہ یہ ہے کہ ہر محب وطن پاکستان کی پہلی اور سب سے بڑی وابستگی اپنے دین، اپنی دھرتی، اپنی فوج اور اپنے اداروں کے ساتھ ہے، باقی سب ثانوی ہے۔