شہر میں لاکھ چراغاں ہو تو کیا ہوتا ہے
شہر میں لاکھ چراغاں ہو تو کیا ہوتا ہے
میرے گھر میں وہی مٹی کا دیا ہوتا ہے
درد سینے میں مرے جب بھی مہک اٹھتا ہے
زخم یادوں کا تری اور ہرا ہوتا ہے
داستاں غم کی سناؤں یہ ضروری تو نہیں
نفس مضمون تو چہرے پہ لکھا ہوتا ہے
شدت غم سے نہ مٹ جائے کہیں میرا وجود
روز اک غم مری چوکھٹ پہ کھڑا ہوتا ہے
قتل کرتا ہے وہ ہر روز مجھے قسطوں میں
میرے احساس میں جو درد چھپا ہوتا ہے
تیری محفل سے نکل جاؤں یہی اچھا ہے
یہاں ہر روز نیا حشر بپا ہوتا ہے
غرق ہو جائے نہ کشتی کہیں ڈر سے عارفؔ
ناخدا کہتا ہے منجدھار سے کیا ہوتا ہے