شبوں کی زلف کی روئے سحر کی خیر مناؤ
شبوں کی زلف کی روئے سحر کی خیر مناؤ
نگار شمس عروس قمر کی خیر مناؤ
سپاہ دشمن انسانیت قریب آئی
دیار حسن سر رہ گزر کی خیر مناؤ
ابھی تو اوروں کے دیوار و در پہ یورش تھی
اب اپنے سایۂ دیوار و در کی خیر مناؤ
چلی ہے آتش و آہن کے دل سے باد سموم
چمن کے جلوۂ گلہائے تر کی خیر مناؤ
گزر نہ جائے کہیں بحر و بر سے خون کی دھار
فروغ شبنم و آب و گہر کی خیر مناؤ
یہ نفع خوروں کی دانش فروش دنیا ہے
متاع علم کی جنس ہنر کی خیر مناؤ
مرے لیے ہے مری مفلسی و ناپاکی
تم اپنی پاکئ قلب و نظر کی خیر مناؤ