شباب اس کا تھا اک عطر دان کی خوشبو

شباب اس کا تھا اک عطر دان کی خوشبو
سمیٹ لایا تھا سارے جہان کی خوشبو


بڑھی جو عمر تو حالات نے بھی رخ موڑا
اب ان سے آنے لگی دادا جان کی خوشبو


جو اک کھنڈر ہے ہماری گلی کے نکڑ پر
وہاں سے آتی ہے اک خاندان کی خوشبو


یہ راز میں نہ سمجھ پائی آج تک بھابی
کہ تم سے آتی ہے کیوں بھائی جان کی خوشبو


لپٹ کے سو گئی کل رات ان کے سینے سے
بھلی کچھ ایسی لگی امی جان کی خوشبو


جدھر بھی جاتی ہوں چہرے ہیں جھریوں والے
کہیں سے آتی نہیں نوجوان کی خوشبو