شب خمار‌‌ حسن ساقی حیرت میخانہ تھا

شب خمار‌‌ حسن ساقی حیرت میخانہ تھا
آپ ہی مے آپ ہی خم آپ ہی پیمانہ تھا


کعبہ و دیر کلیسا میں عبث ڈھونڈا کئے
دل کا ہر گوشہ مقام جلوۂ جانانہ تھا


رنگ لایا ہے برائے‌ دیدۂ انجام جو
شمع ہر ہر ذرۂ خاک پر پروانہ تھا


خامیٔ ذوق نظر تھی ورنہ اے ناکام عشق
ذرے ذرے سے نمایاں جلوۂ جانانہ تھا


پھر وہی صوت طرب افزا بنے فردوس گوش
جس سے اک عالم شہید نغمۂ مستانہ تھا


دید کے قابل تماشا تھا یہ ہنگام سحر
شمع کا ہر سانس محو ماتم پروانہ تھا


فتنۂ مذہب بھی خود بینی کا اک انداز ہے
ورنہ کس کو امتیاز‌ مسجد و بتخانہ تھا