شب ظلمت

ہجر کی رات گزرتی ہی نہیں
کب تلک بزم پہ تاریکی رہے
کب تلک شومیٔ قسمت کا گلا
کب تلک درد کے بڑھنے کی فغاں
کب تلک بے کسی کا شکوہ رہے
کب تلک بے بسی کا نالہ رہے
کب تلک ہوں گی رواں حالتیں یہ
کب تلک چھائی رہیں ظلمتیں یہ
نور اٹھتا ہے مگر کیا کیجیے
ظلم کی کالی گھٹا چار سو ہے