شب مہتاب بھی اپنی بھری برسات بھی اپنی
شب مہتاب بھی اپنی بھری برسات بھی اپنی
تمہارے دم قدم سے زندگی تھی زندگی اپنی
یہاں پابندی، ناراضی، جنونی بات ہے ورنہ
جمال یار سے کچھ کم نہیں تابندگی اپنی
مجھے شادابیٔ صحن چمن سے خوف آتا ہے
یہی انداز تھے جب لوٹ گئی تھی زندگی اپنی
تمہارا غم اسے آشوب صرصر بچائے گا
ہواؤں سے بھڑک اٹھی ہے شمع زندگی اپنی
مگر تم بھی تو اک بوئے گریزاں کی طرح نکلے
گزرنے کو گزر جاتی بہار دوستی اپنی
ظہیرؔ اس چشم اول پہ یوں ہی محسوس ہوتا ہے
بڑی مدت سے ہے جیسے کسی سے دوستی اپنی