شب ہجراں

سوزش غم کا بیاں لب پہ نہ لاؤں کیونکر
درد ہے حد سے سوا دل میں چھپاؤں کیونکر
تو یہیں دوست مرے غم کا مداوا کر دے
چوٹ جو دل پہ لگی ہے وہ دکھاؤں کیونکر
کیسے دہراؤں غم زیست کے افسانے کو
سننے والا نہ کوئی ہو تو سناؤں کیونکر
روشنی ہوتی نہیں میرے سیہ خانے میں
شمع دل اب شب ہجراں میں جلاؤں کیونکر
سلک انجم ہیں تری یاد میں آنسو اب تک
تیرے دامن کو ستاروں سے سجاؤں کیونکر
جب کے تنکے کا سہارا بھی نہیں ہے ناشادؔ
اپنی کشتی کو تلاطم سے بچاؤں کیونکر