شب غم ضبط کوشی سے ہم اتنا کام لیتے ہیں
شب غم ضبط کوشی سے ہم اتنا کام لیتے ہیں
جو دل میں ہوک اٹھتی ہے کلیجہ تھام لیتے ہیں
نہ جانے کیوں نگاہوں سے گرے جاتے ہیں دنیا کی
گنہ کرتے ہیں کوئی یا تمہارا نام لیتے ہیں
اسی کو احترام حسن کہتے ہیں حقیقت میں
ہم اپنے ذکر سے پہلے تمہارا نام لیتے ہیں
نشاط آشیاں کا راز عرفان عقیدت ہے
چمن کی پتی پتی سے ترا پیغام لیتے ہیں
جنہیں نازوں سے پالا ہم نے آغوش محبت میں
وہی گن گن کے بدلے اے دل ناکام لیتے ہیں
نشیمن سے ہیں ساری کیفیات زندگی قائم
گلوں کے رنگ و بو سے ہم سرور جام لیتے ہیں
دل غم آشنا کی مضطرب گھڑیاں نہیں کٹتیں
چلے آؤ کہ ہم بیٹھے تمہارا نام لیتے ہیں
ہمیں اے زیبؔ قلب ماہیت کی بھی تو عادت ہے
پریشانی سے ہم اکثر سکوں کا کام لیتے ہیں