شاید نصیب بوسۂ نعلین یار ہو
شاید نصیب بوسۂ نعلین یار ہو
جو خاک ہو تو خاک سر رہ گزار ہو
صحرا ہو صحن باغ ہو یا کوہسار ہو
ساقی جہاں پلائے وہیں پر بہار ہو
ہم خاک ہو گئے پہ کدورت نہیں گئی
یا رب کسی کے دل میں نہ یوں بھی غبار ہو
الفت ہے غیر کی تو سنو تم نہ میرا حال
رحم آ ہی جائے گا تمہیں نفرت ہزار ہو
مایوسیوں پہ بھی نہ ہوا مائل سکوں
ایسا بھی دل کسی کا نہ پروردگار ہو
سب جانتا ہوں حضرت ناصح پہ کیا کروں
دل پر کروں میں جبر اگر اختیار ہو
یوں تو خبر ہے آمد فصل بہار کی
لیکن نصیب میں بھی تو لطف بہار ہو
بیخودؔ کی بے خودی بھی ہے تیرے خیال میں
تیری خودی نہیں کہ تغافل شعار ہو