شاید ابھی ہے راکھ میں کوئی شرار بھی

شاید ابھی ہے راکھ میں کوئی شرار بھی
کیوں ورنہ انتظار بھی ہے اضطرار بھی


دھیان آ گیا تھا مرگ دل نامراد کا
ملنے کو مل گیا ہے سکوں بھی قرار بھی


اب ڈھونڈنے چلے ہو مسافر کو دوستو
حد نگاہ تک نہ رہا جب غبار بھی


ہر آستاں پہ ناصیہ فرسا ہیں آج وہ
جو کل نہ کر سکے تھے تیرا انتظار بھی


اک راہ رک گئی تو ٹھٹک کیوں گئیں اداؔ
آباد بستیاں ہیں پہاڑوں کے پار بھی