شام تک صبح کی نظروں سے اتر جاتے ہیں

شام تک صبح کی نظروں سے اتر جاتے ہیں
اتنے سمجھوتوں پہ جیتے ہیں کہ مر جاتے ہیں


پھر وہی تلخئ حالات مقدر ٹھہری
نشے کیسے بھی ہوں کچھ دن میں اتر جاتے ہیں


اک جدائی کا وہ لمحہ کہ جو مرتا ہی نہیں
لوگ کہتے تھے کہ سب وقت گزر جاتے ہیں


گھر کی گرتی ہوئی دیواریں ہی مجھ سے اچھی
راستہ چلتے ہوئے لوگ ٹھہر جاتے ہیں


ہم تو بے نام ارادوں کے مسافر ہیں وسیمؔ
کچھ پتہ ہو تو بتائیں کہ کدھر جاتے ہیں