شام غم اور ستاروں کے سوا
شام غم اور ستاروں کے سوا
جی سکے ہم نہ سہاروں کے سوا
تلخیٔ آخر شب کون سہے
ہجر میں درد کے ماروں کے سوا
بے رخی بھی تو بجا ہے لیکن
پھول کیا چیز ہیں خاروں کے سوا
کس کو فرصت ہے کہ ہو سیر چمن
ماہ رو شعلہ عذاروں کے سوا
رنگ دنیا میں کئی اور بھی ہیں
بہکی بہکی سی بہاروں کے سوا
جانے جنت میں بھی کیا رکھا ہے
ایسے ہی شوخ نظاروں کے سوا
زندگی سب کو صدا دیتی ہے
ہاں مگر عرض گزاروں کے سوا