شاخ بلند بام سے اک دن اتر کے دیکھ

شاخ بلند بام سے اک دن اتر کے دیکھ
انبار برگ و بار خزاں میں بکھر کے دیکھ


مٹی کے سادگی میں الگ سا جمال ہے
رنگوں کی نکہتوں کی قبا تار کرکے دیکھ


امکاں کی وسعتوں کے افق زار کھل گئے
پر تولنے لگے ہیں پرندے سحر کے دیکھ


ظلمت کی کشتیوں کو بھنور ہے یہ روشنی
در کھل رہے ہیں دانش و علم و خبر کے دیکھ


کیا جانے غم کی آنچ کا پرتو کہاں پڑے
انگڑائی لے رہے ہیں ہیولے شرر کے دیکھ


سنگین حادثوں کی حکایت طویل ہے
کوہ گراں کی بات نہ کر زخم سر کے دیکھ


اپنی بصارتوں کو جسارت کی آنچ دے
منظر اسی نظر سے جہان دگر کے دیکھ


پندار سرنگوں کا جنوں معتبر نہیں
بجھتے ہوئے چراغ کی لو تیز کرکے دیکھ


اکبرؔ ندائے شب کو نوائے سحر سمجھ
لو دے رہے ہیں حوصلے اہل نظر کے دیکھ