شاعری سچ بولتی ہے

لاکھ پردوں میں رہوں بھید مرے کھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
میں نے دیکھا ہے کہ جب مری زباں ڈولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
تیرا اصرار کہ چاہت مری بیتاب نہ ہو
واقف اس غم سے مرا حلقۂ احباب نہ ہو
تو مجھے ضبط کے صحراؤں میں کیوں رولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
یہ بھی کیا بات کہ چھپ چھپ کے تجھے پیار کروں
گر کوئی پوچھ ہی بیٹھے تو میں انکار کروں
جب کسی بات کو دنیا کی نظر تولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
میں نے اس فکر میں کاٹیں کئی راتیں کئی دن
مرے شعروں میں ترا نام نہ آئے لیکن
جب تری سانس مری سانس میں رس گھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
تیرے جلووں کا ہے پر تری مری ایک ایک غزل
تو مرے جسم کا سایہ ہے تو کترا کے نہ چل
پردہ داری تو خود اپنا ہی بھرم کھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے