شاعر سے شعر سنئے تو مصرع اٹھائیے
شاعر سے شعر سنئے تو مصرع اٹھائیے
اک بار اگر نہ اٹھے دوبارہ اٹھائیے
کوئی کسی کی لاش اٹھاتا نہیں یہاں
اب خود ہی اپنا اپنا جنازہ اٹھائیے
اغوا ہی کرنا تھا تو کوئی کم تھے لکھ پتی
کس نے کہا تھا روڈ سے کنگلا اٹھائیے
کوئی قدم اٹھانا تو ہے راہ شوق میں
اگلا قدم نہ اٹھے تو پچھلا اٹھائیے
اسٹیج پر پڑا تھا جو پردہ وہ اٹھ چکا
جو عقل پر پڑا ہے وہ پردہ اٹھائیے
پوشیدہ بم بھی ہوتے ہیں کچرے کے ڈھیر میں
ہشیار ہو کے روڈ سے کچرا اٹھائیے