شاعر بنے ہیں ڈاکٹر جو ڈاکٹر نہ تھے
شاعر بنے ہیں ڈاکٹر جو ڈاکٹر نہ تھے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
گیسوئے یار پہلے تو یوں مختصر نہ تھے
فیشن ہی کچھ طویل تھا یا باربر نہ تھے
آئے مری لحد پہ وہ غیروں کی کار میں
آنچل تمام خشک تھا رخسار تر نہ تھے
خانہ بدوش اگر رہا مجنوں تو کیا ہوا
یہ وہ زمانہ تھا کہیں صحرا میں گھر نہ تھے
اس وقت بھی پہنچتی تھی گھر گھر میں ہر خبر
جس وقت ریڈیو نہ تھا یہ تار گھر نہ تھے
سرخاب کے تھے پر لگے گل کی کلاہ میں
بلبل کا اس میں خون تھا بلبل کے پر نہ تھے